روس کے صدر (روسی: Президент Российской Федерации) روسی وفاق کے ریاستی سربراہ اور ملک کے اعلیٰ ترین عہدے دار ہیں۔ صدر کو روس کے آئین کے تحت وسیع اختیارات حاصل ہیں، جن میں حکومت کی نگرانی، قانون سازی کی منظوری اور بین الاقوامی معاہدوں کی توثیق شامل ہیں۔ روس کے صدر ملک کی داخلی و خارجی پالیسیوں کا اہم مرکز ہیں اور مسلح افواج کے سپریم کمانڈر بھی ہیں۔[5]
روس کے صدر کا عہدہ 1991ء میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد قائم ہوا۔ بورس یلسن پہلے صدر تھے، جنھوں نے سوویت نظام کے خاتمے اور روسی فیڈریشن کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ 1993ء میں روس کا نیا آئین منظور ہوا، جس نے صدر کے اختیارات کو متعین کیا۔[6]
روس کے صدر کا انتخاب عوام کے براہ راست ووٹوں سے ہوتا ہے۔ صدر کی مدت صدارت چھ سال ہوتی ہے اور وہ مسلسل دو مدتوں تک عہدے پر رہ سکتے ہیں۔ تاہم، آئینی ترامیم کے ذریعے اس حد میں تبدیلی کی گئی ہے، جس کے تحت موجودہ صدر ولادیمیر پیوٹن 2024ء کے بعد بھی انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔[7]
روس کے صدر کے اختیارات میں حکومت کی تشکیل، وزیر اعظم کی تقرری، قوانین پر دستخط کرنا، پارلیمان کو تحلیل کرنا اور قومی سلامتی کی پالیسیوں کی نگرانی شامل ہے۔ صدر کو ایمرجنسی نافذ کرنے اور مسلح افواج کو متحرک کرنے کا بھی اختیار حاصل ہے۔[8] صدر کی حکومت میں پارلیمان اور عدلیہ کے ساتھ اختیارات کی تقسیم کا تصور موجود ہے، تاہم عملی طور پر صدر کا اثر و رسوخ غالب رہتا ہے۔[9]
روس کے صدور میں بورس یلسن، ولادیمیر پیوٹن اور دمتری میدویدیف شامل ہیں۔ ولادیمیر پیوٹن، جو پہلی بار 2000ء میں صدر بنے، روس کے سب سے نمایاں اور بااثر صدور میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ان کے دور میں روس نے داخلی استحکام اور بین الاقوامی سطح پر اپنی حیثیت کو مستحکم کیا ہے۔[10]
روس کے موجودہ صدر ولادیمیر پیوٹن ہیں، جو 2000ء سے مختلف ادوار میں اس عہدے پر فائز ہیں۔ ان کی قیادت میں روس نے معیشت، دفاع اور خارجہ پالیسی کے میدان میں نمایاں ترقی کی ہے۔[11] پیوٹن کے دور حکومت میں آئینی ترامیم کے ذریعے ان کے اختیارات میں اضافہ ہوا ہے اور ان کی مدت صدارت کو طول دیا گیا ہے۔[12]