دَاْرُ الْبَیْضَاْ (عربی:اَلدَاْرُ الْبَیْضَاَءَ بربر زبانیں: ⴰⵏⴼⴰ مؤرد: اَنْفَا) المغرب کا سب سے بڑا شہر اور اہم ترین بندر گاہ ہے اور دارالبیضاء/ کاسابلانکا کے علاقہ کا دارالحکومت بھی ہے۔ عربی میں اس کا سرکاری نام دارالبیضاء اور ہسپانوی زبان میں کاسابلانکا ہے جن دونوں کا لفظی مطلب سفید گھر ہے۔ ستمبر 2004ء کی مردم شماری کے مطابق شہر کی آبادی پینتیس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ رباطالمغرب کا دارالحکومت ہے، جبکہ دارالبیضاء سب سے بڑا شہر اور بندرگاہ ہونے کی وجہ سے اقتصادی دار الحکومت ہے۔
تاریخ
کاسا بلانکا کی بنیاد بربریوں نے انفا نام کی آزاد ریاست کے ساتھ ساتویں صدی عیسوی میں رکھی، جسے 1068ء میں سحارہ کے المرابطون (مرابط حکمران خاندان) نے فتح اور اپنی ریاست میں شامل کیا۔ چودہویں صدی عیسوی میں مرینیون (حکمران خاندان) کی حکمرانی میں انفابندرگاہ کے طور پر اہمیت اختیار کرنے لگا۔ پندرہویں صدی عیسوی میں شہر ایک باد پھر آزاد ریاست بنا لیکن ساتھ ہی قزاقوں کی قوت کے سامنے بے بس ہونے کی وجہ سے ان کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ اور بندرگاہ بن گیا، جس کے نتیجہ میں 1468ء میں پرتگالیوں کی بمباری کا نشانہ بن کر تباہ ہوا۔ 1515ء پرتگالیوں نے انفا کی تعمیر نو کر کے اسے ایک فوجی قلعہ بنایا جسے 1755ء کے زلزلہ میں تباہ ہونے کے بعد ترک کر دیا گیا۔
انیسویں صدی عیسوی میں شہر کی آبادی تیزی سے بڑھنے لگی جس کی وجہ بطور بندرگاہ شہر کے استعمال میں تیزی سے بڑھتا ہوا اضافہ تھا۔ کاسا بلانکا سے اونبرطانیہ کی ابھرتی ہوئی ٹیکسٹائل صنعت کے لیے بھیجی جاتی تھی۔ 1860ء میں شہر کی آبادی چارہزار تھی جو 1880ء میں بڑھ کر نو ہزار ہو گئی اور آنے والے چند سالوں میں بارہ ہزار سے تجاوز کر گئي۔ 1921ء میں آبادی ایک لاکھ دس ہزار ہو چکی تھی جس میں زیادہ اضافہ گردونواع میں غیر منصوبہ بند بستیوں سے ہوا۔
فرانسیسی دور اقتدار
سترہویں، اٹھارویں صدی میں المغرب بربریوں کے زیر حکومت اور بحری قزاقوں کے لیے پناہ گاہ رہا۔ یورپی طاقتوں 1840ء سے المغرب کو کالونی بنانے میں دلچسپی لے رہی تھیں اور فرانس اور ہسپانیہ سے کئی ایک جھڑپیں بھی ہو چکی تھیں۔ 1904ء میں فرانس اور ہسپانیہ ایک خفیہ معاہدہ پر متفق ہوئے، جس کے نتیجہ میں المغرب کے حصے بکھرے کیے گئے۔ زیادہ تر المغرب پر فرانس نے قبضہ کیا جبکہ ہسپانیہ کے حصہ میں چھوٹا جنوبی علاقہ آیا۔
1907ء میں فرانسیسیوں نے ایک قبرستان سے گزرتی ہوئی ریل کی پٹڑی بچھانے کی کوشش کی جس کے نتیجہ میں مقامی آبادی نے فرانسیسی کارکنوں پر حملہ کیا اور ہنگامہ آرائی ہوئی۔ فرانسیسی افواج صورت حال پر قابو پانے اور امن و امان بحال کرنے کے اتریں، لیکن ان ہنگاموں اور فوج کے ساتھ جھڑپوں میں شہر کو شدید نقصان ہوا، جو آخرکار شہر پر فرانسیسی قبضہ ختم ہوئے۔ یہاں سے ہی کالونی بنانے کے عمل کا آغاز ہوا جو 1910ء تک مکمل ہوا۔ 1940ء سے 1950ء کے عشرہ میں فرانسیسیوں کے خلاف بغاوت میں شہر باغیوں کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ اور یہاں ہی 1953ء کے کرسمس دن پر بم حملے میں بہت بڑی تعداد میں اموات ہوئیں۔
مارچ 2000ء میں عورتوں کے تنظیموں نے کاسا بلانکا میں عورتوں کے حقوق کے لیے مظاہرہ کیا جس میں چالیس ہزار عورتوں نے شرکت کی۔ مظاہرین نے مردوں کے ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کے خلاف اور طلاق کے قوانین میں رد و بدل کے مطالبات کیے۔ گرچہ مخالفت میں پانچ لاکھ افراد نے مظاہرہ کیا لیکن تحریک شاہ محمد چہارم کو متاثر کرنے میں کامیاب رہی۔ جس کے نتیجہ میں اوائل 2004ء میں نئے خاندانی قوانین متعارف کرائے گئے، جن میں مظاہرین کے کچھ مطالبات کو تسلیم کیا گیا ہے۔
16 مئي2003ء کو کاسا بلانکا میں خود کش بم دھماکے کیے گئے جس کے نتیجہ میں 33 اموات ہوئیں اور 100 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔ دھماکے کرنے والے المغرب کے ہی باشندے تھے جن کا تعلق القاعدہ سے بتایا جاتا ہے۔
موجودہ شہر
فرانسیسی دور اقتدار میں دار البیضا کا نیا قصبہ فرانسیسی ماہر فن تعمیر آنری پروست نے تشکیل دیا جو اس وقت کا جدید ترین نمونہ تھا۔ اور یہ موجودہ المغرب کی سب سے زیادہ پر تاثر جگہ ہے۔ علاقہ میں سابقہ انتظامی عمارات اور جدید ہوٹل موجود ہیں۔ اور فن تعمیر مورش طرز تعمیر کی عکاسی کرتا ہے۔
پارک دے لا لیگوے عرابے (سابقہ نام لیاوٹے) شہر کا سب سے بڑا پارک ہے، جس کے قریب گرجا گھر کاتھدرال دو ساکرے کور (Cathedrale du Sacré Coeur) واقعہ ہے۔ گرجا گھر ترک کیا جا چکا ہے، تاہم یہ مورش فن تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔
قدیم شہر المغرب کے باقی شہروں کے قدیم حصوں مثلا فیس یا المغرب کے مقابلے میں سیاحوں کو کم متوجہ کرتا ہے۔ تاہم حال ہی میں کچھ تعمیر نو کی گئی ہے قدیم عمارتوں کو محفوظ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جن میں شہر کی مغربی دیوار اور کالونی دور کا گھنٹہ گھر وغیرہ شامل ہیں۔
حسن دوم مسجد فرانسیسی ماہر فن تعمیر مائیکل پنسیو (Michel Pinceau) کا شاہکار ہے، جو بحر اوقیانوس کے ساحل پر آگے ابھری ہوئی چٹان پر تعمیر کی گئی ہے۔ مسجد میں ایک وقت میں 25 ہزار عبادت گزار عبادت کر سکتے ہیں۔ اور مسجد کے احاطہ کو شامل کر کے مزید 80 ہزار عبادت گزاروں کی گنجائش ہے۔ اس کے مینار کی اونچائی 210 میٹر ہے۔ مسجد پر کام کا آغاز 1980ء میں کیا گیا تھا اور تکمیل کے لیے 1989ء کا سن دیا گیا تھا جو شاہ المغرب حسن دوم کی ساٹھویں سالگرہ تھی۔ تاہم افتتاح 1993ء میں کیا جا سکا۔
کاسا بلانکا ٹوئن سنٹر دو بلند عمارتوں پر مشتمل ہے جن میں سے ہر ایک 28 منزلہ ہے۔ یہ منصوبہ ہسپانوی ماہر فن تعمیر رکاردو بوفل لیوی (Ricardo Bofill Levi) کا شاہکار ہے۔
↑"صفحہ دار البیضا في ميوزك برينز."۔ MusicBrainz area ID۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 دسمبر 2024ءline feed character في |accessdate= على وضع 15 (معاونت); تحقق من التاريخ في: |access-date= (معاونت)