شجرۂ نسب یہ ہے : امامہ بنت ابی العاص بن ربیع بن عبد العز ّیٰ بن عبد شمس بن عبد مناف۔ امامہ علی ابن زینب کی بہن تھیں۔سیدہ امامہ رضی اللہ عنہا سیدنا ابو العاص بن ربیع کی بڑی صاحبزادی تھیں ۔ یہ خالص ہاشمی اور قریشی گھرانہ تھا جہاں اخلاق کی اعلیٰ مثالیں موجود تھیں ۔ جس بچی کی والدہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا ہوں اور والد ابو العاص بن ربیع رضی اللہ عنہ جیسے نہایت شریف النفس انسان ہوں جن کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابو العاص نے ہم سے جو بھی بات کی سچی کی، جو وعدہ کیا اسے پورا کیا ۔ جس کی نانی ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ہوں اور نانا امام الانبیاء حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہوں ، اس سے زیادہ اعلیٰ نسب کس کا ہو سکتا ہے؟ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی گود میں پلنے والی سیدہ امامہ رضی اللہ عنہا نہایت لاڈلی تھیں ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بہت پیار کرتے تھے۔[1].[2]
نکاح اور دیگر حالات
سیدہ امامہ رضی اللہ عنہا نے اپنے نانا محترم سے بہت محبت اور پیار حاصل کیا ۔ سیدہ امامہ رضی اللہ عنہا نے 8ھ میں اپنی والدہ حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی جدائی کا صدمہ برداشت کیا اور 12ھ میں ان کے شفیق و مہربان والد محترم سیدنا ابو العاص بن ربیع رضی اللہ عنہ وفات پا گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
واضح رہے کہ سیدنا ابو العاص رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے پہلے سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو ، جو ان کے قریبی رشتہ دار تھے، سیدہ امامہ رضی اللہ عنہ کی کفالت کے متعلق وصیت بھی فرمائی تھی۔
رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چند ماہ بعد سیدہ فاطمہ الزہراء بھی وفات پا گئیں۔ بعض روایات کے مطابق انھوں نے سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو وصیت کی تھی کہ وہ ان کے بعد امامہ بنت زینب رضی اللہ عنہا سے شادی کر لیں۔
سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے ابو العاص رضی اللہ عنہ کی وصیت کے مطابق سیدنا امامہ رضی اللہ عنہا کا نکاح سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کر دیا۔
میاں بیوی مثالی محبت اور پیار تھا ۔ شادی کے بعد سیدہ امامہ رضی اللہ عنھا کے آنگن میں ایک خوبصورت پھول کھلا جن کا نام محمد رکھا گیا جو بعد میں محمد الاوسط کے لقب سے مشہور ہوئے
بعض سیرت نگاروں کے مطابق سیدہ امامہ رضی اللہ عنھا کے ہاں کوئی والاد نہیں ہوئی امیر المؤمنین سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان کا نکاح مغیرہ بن نوفل رضی اللہ عنہ سے ہوا اور ایک بیٹا پیدا ہوا جس کی وجہ سے ان کی کنیت ام یحیی مشہور ہوئی انہی کے عقد میں آپ کی وفات ہو گئی-
40ھ میں علی مرتضی نے شہادت پائی تو مغیرہ بن نوفل (عبد المطلب کے پڑپوتے) کو وصیت کر گئے کہ امامہ سے نکاح کر لیں۔ مغیرہ نے وصیت کی تعمیل کی۔۔[3][4][5][6]
وفات
سیدہ اُمامہ بنت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا 66ھ میں انتقال کر گئیں۔
سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم مسجد میں ہوتے کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ امامہ رضی اللہ عنہا کو اٹھایا ہوا ہوتا تھا ، آپ رضی اللہ عنہا ابھی بچی تھیں اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے پر سوار ہوتی تھیں ۔ اسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھاتے ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں جاتے تو انھیں اتار دیتے اور جب قیام کرتے تو انھیں اٹھا لیتے۔[7]
ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عقیق کا قیمتی ہار تحفے میں آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میرے اہل و عیال میں سے جو مجھے سب سے محبوب ہے، یہ ہار میں اسے دوں گا۔ عورتوں نے کہہ دیا : یہ ہار بھی ابو قحافہ رضی اللہ عنہ کی پوتی(سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ) لے جائے گی لیکن نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم نے امامہ بنت زینب رضی اللہ عنہا کو بلایا اور وہ ہار ان کے گلے میں ڈال دیا۔
^ ابابن سعد (1990)۔ الطبقات الكبرى (الأولى ایڈیشن)۔ لبنان: دار الكتب العلمية۔ ص 185-186، جزء 8۔ 2019-05-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 يوليو 2015{{حوالہ کتاب}}: تحقق من التاريخ في: |تاريخ الوصول= (معاونت)"نسخة مؤرشفة"۔ 20 يوليو 2017 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 يوليو 2015{{حوالہ ویب}}: تحقق من التاريخ في: |تاريخ الوصول= و|تاريخ أرشيف= (معاونت)
↑ابن جرير الطبري۔ تاريخ الطبري (الثانية ایڈیشن)۔ لبنان: دار التراث۔ ص 154، جزء 5۔ 2019-04-16 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 يوليو 2015{{حوالہ کتاب}}: تحقق من التاريخ في: |تاريخ الوصول= (معاونت)"نسخة مؤرشفة"۔ 9 يوليو 2017 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 يوليو 2015{{حوالہ ویب}}: تحقق من التاريخ في: |تاريخ الوصول= و|تاريخ أرشيف= (معاونت)