چپکو تحریک (انگریزی: Chipko movement)، جسے عرف عام چپکو آندولن کہا جاتا تھا، ایک جنگلات کے تحفظ کی تحریک تھی جو بھارت میں شروع ہوئی تھی۔ اس کا آغاز [1973ء]] میں اتراکھنڈ کے چمولی ضلع کے رینی گاؤں سے شروع ہوا۔ یہ تحریک آگے چل کئی مستقبل کی دیگر عالم گیر سطح کی تحریکوں کی داعی بنی۔ یہ بھارت میں عدم تشدد پر مبنی تحریکوں کے شروع کرنے کے لیے ایک نظیر بن گئی۔[1] اس تحریک کی کامیابی سے مراد لیا گیا ہے کہ دنیا عدم تشدد تحریکوں پر فوری طور غور کرنے لگی ہے۔ یہ ماحولیاتی گروہوں کے لیے بھی حوصلہ افزا تھی جنہیں یہ تحریک جنگلات کے کاٹنے کو روکنے میں اور مفاد حاصلہ کی کار فرمائی کو افشا کرنے میں معاون تھی۔ اس سے عوام کی طاقت کا بھی مظاہرہ ہوا تھا۔ ان سب کے علاوہ یہ موجودہ شہری سماج ہلچل پیدا کرنے میں مدد گار ہوئی، جو قبائلی اور دبے کچلے لوگوں کے مسائل پر غور کرنے لگے۔ چپکو آندولن ایک تحریک ہے جس میں ستیاگرہ کے طریقوں کو بروئے کار لایا گیا۔ اس میں اتراکھنڈ کے مرد اور خواتین نے کلیدی کردار ادا کیا، جن میں گورا دیوی، سُدیشا دیوی، بچنی دیوی اور چنڈی پرساد بھٹ شامل تھے۔
جدید دور میں ماحولیاتی اشتراکیت کی پکار کے آگے یہ ماحولیاتی نسوانیت کی تحریک کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔ حالانکہ اس تحریک کے کئی مرد قائدین بھی تھے، تاہم عورتیں نہ صرف اس کی ریڑھ کی ہدی رہیں ہیں بلکہ اس کی روح رواں تھیں کیوں کہ یہی لوگ جنگلوں کے کاٹنے سے سب سے زیادہ متاثر ہوئیں تھیں۔ [2] اسی کے اثرات کے طور پر آگ کی لکڑی، چارہ، پینے کا پانی اور آبرسانی بری طرح سے متاثر ہوئے تھے۔ گذشتہ کچھ سالوں میں وہ بنیادی شراکت دار بن چکی تھیں اور جنگلات کی باز ماموری میں کلیدی کردار کی حامل رہیں، جو اس تحریک کی اپج تھی۔ [3][4][5]1987ء میں چپکو تحریک کو اصح روز گار انعام (Right Livelihood Award) عطا کیا گیا۔ [6]
چپکو طرز کی تحریک کی تاریخ 1730ء تک پہنچتی ہے جب راجستھان کے کارتیکیئی کمبوج گاؤں میں پرسنا کمار اور 363 بشنوئیکھیجری درختوں کو بچانے کے لیے اپنی زندگی کی قربانی دی تھی۔
چپکو تحریک کا نعرہ
کیا ہے جنگل کے اپکار، مٹی، پانی اور بیار۔
مٹی، پانی اور بیار، زندہ رہنے کے ادھار۔
تازہ مثال
بھارت کی راجدھانی دہلی کی از سر نو تعمیر کے نام پر مرکز کی مودی حکومت نے 2018ء میں 16500 درختوں کو کاٹنے کی منظوری دے دی تھی جس کے بعد نہ صرف ماحولیات سے محبت رکھنے والے لوگ بلکہ عوام میں بھی زبردست ناراضی دیکھی گئی۔ اپنی ناراضی کا اظہار کرنے کے مقصد سے 24 جون کو دہلی کے سروجنی نگر علاقے میں لوگوں کا جم غفیر ہاتھ میں تختی لے کر درخت کاٹے جانے کے فیصلے کی مخالفت کی۔ لوگوں نے تختیوں کے ساتھ ساتھ درختوں سے چپک کر 'چِپکو تحریک' بھی چلائی۔ قابل ذکر ہے کہ ایک دن پہلے یعنی 23 جون کو بھی لوگوں نے مرکزی حکومت کے ذریعہ ہزاروں کی تعداد میں درخت کاٹنے کے فیصلے کے خلاف درختوں سے چپک کر مظاہرہ کیا تھا۔[7]
↑Chipko MovementThe Future of the Environment: The Social Dimensions of Conservation and Ecological Alternatives, by David C. Pitt. Published by Routledge, 1988. آئی ایس بی این0-415-00455-1. Page 112.