گجراتی مصنف و مدیر جھاویرچند میگھانی نے پنالال پٹیل سے گجراتی روزنامہ پھول چھاب کے لیے ایک کہانی لکھنے کی گزارش کی۔ پٹیل نے ملیلا جیو 24 دنوں میں لکھا اور یہ ہر روز سلسلہ وار چھپتا گیا۔ بعد میں اسے 1941 میں کتابی شکل میں شائع کیا گیا۔[3]
کردار
کنجی (کاف مزبور) - ایک نوجوان لڑکا جو پٹیل خاندان میں پیدا ہوتا ہے۔
جیوی - خوبصورت عورت، جو ایک حجام خاندان میں پیدا ہوتی ہے۔
ہیرو - کنجی کا دوست
دھُولا- کنجی کے گاؤں کا حجام
کہانی
کَنجی اور جیوی جوگی پاڑا اور اُدھاریہ کے دیہات میں رہتے ہیں اور دونوں کا تعلق دو الگ ذاتوں سے ہے۔ یہ دونوں جنم اشٹمی کے میلے میں ملتے ہیں اور ایک دوسرے پر فریفتہ ہوجاتے ہیں۔ وہ شادی نہیں کر سکتے تھے کیونکہ دونوں کی ذاتیں الگ تھیں اور کنجی پر بڑے بھائی کی شادی کی سماجی ذمے داری تھی۔ مگر وہ جیوی کے بغیر زندہ رہنا مشکل پا رہا تھا۔ اس کا دوست ہیرو مشورہ دیتا ہے کہ جیوی دھُولا سے شادی کرلے جو ان کے گاؤں کا حجام تھا۔ ایک نفسیاتی جدوجہد کے بعد کنجی ہیرو اتفاق کر کے جیوی کی شادی دھولا سے کرنے کے لیے راضی ہوجاتا ہے۔ مگر اس کا منصوبہ متوقع نتیجہ نہیں دکھاتا ہے۔ دھولا کی شکی فطرت، اس کا ظلم، جیوی کے لیے خراب رویہ اور اس کی سازشیں اس منصوبے کو کامیاب نہیں ہونے دیتے۔ کنجی گاؤں سے شہر کا رخ کرتا ہے تاکہ وہ جیوی سے دور رہ سکے۔ دوسری جانب روزانہ کے جھگڑے اور مارپیٹ سے تنگ آکر جیوی خودکشی کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ تاہم غلطی سے دھولا اپنی زندگی کھو دیتا ہے اور جیوی دماغی طور پر معذور ہو جاتی ہے اور کنجی کا ساتھ طلب کرتی ہے۔ بالآخر کنجی کی دنیوی محبت روحانی عشق میں تبدیل ہوتی ہے اور وہ شہر سے آکر پاگل جیوی کو اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔[2][4]
تاثرات
اس کتاب کو قارئیں اور نقادوں نے سراہا ہے۔ میگھانی نے لکھا ہے، "یہ نہ صرف کنجی اور جیوی ہے بلکہ ہم سبھی کی کہانی ہے۔ یہ ہورے سماج کی حساس کہانی ہے۔ یہی اس ناول کا اسلوبیاتی حسن ہے۔"[5]چندراکانت ٹوپی والا نے لکھا ہے، "یہ مصنف کی مقامی دنیا ہے جو مکمل دنیا ہم معنی ہے جب کہانی کے عناصر اور نفسیاتی تجزیہ گردش کی سطح پر بہنچتے ہیں۔" سندرم نے کہا، "یہ کہانی اپنی موجودہ شکل کسی تھی بھارتی ادب میں گجراتی ادب کی نمائندہ کا کردار نبھا سکتی ہے اور کچھ تحفظات کے ساتھ عالمی ادب کا بھی۔"[6]
اس کتاب کو کئی بار شائع کیا جاتا رہا ہے؛ 1944، 1947، 1950، 1956، 1960، 1962، 1967، 1969، 1973، 1977، 1984، 1986، 1991، 1993، 1998، 1999، 2003، 2005، 2008، 2009، 2011، 2012، 2014 اور 2016۔[3]
تراجم اور عوامی ذرائع ابلاغ
اس ناول کا کئی بھارتی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔[8] ان میں ہندی، پنجابی اور کنڑا شامل ہیں۔ اس کا تیلوگو ترجمہ ویموری آنجانییا سرما نے کیا اور اس عنوان کالاسینا جیویتالو رکھا۔ راجیش آئی پٹیل نے انگریزی میں ترجمہ دی یونائیٹیڈ سولز کے طور پر 2011 میں کیا۔[2][9]
اس ناول کو فلموں اور ناٹکوں کو شکل میں کئی بار پیش کیا گیا۔ این آر آچاریہ کی زیر ہدایت الجھن اس کی پہلی گجراتی فلمی پیش کش تھی۔[6]ملیلا جیو (1956) ایک گجراتی فلم ہے جس کی ہدایت منہر رسکاہور نے کی۔ اس کا اسکرپٹ خود ناول نگار نے لکھا تھا۔[10]
جانوماڑا جوڑی جو 1996 کی کنڑا فلم ہے، ملیلا جیو پر بنائی گئی ہے۔[11] اسی کو ایک گجراتی ناٹک کا روپ دیا گیا جس کی ہدایت نیمیش دیسائی نے کی۔[4]
حوالہ جات
↑The Indian Encyclopaedia: Gautami Ganga -Himmat Bahadur۔ 9۔ New Delhi: Cosmo Publications۔ 2002۔ صفحہ: 2718۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 دسمبر 2016الوسيط |مصنف= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |ناشر= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |url-status= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |بین الاقوامی معیاری کتابی عدد= تم تجاهله (معاونت); تحقق من التاريخ في: |access-date= (معاونت)
^ اب"Malela Jeev Gujarati Natak"۔ GujjuBhai۔ 2012-09-10۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2016الوسيط |url-status= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |مصنف= تم تجاهله (معاونت)
↑God Save The Dork by Sidin Vadukut۔ "Kanji and Jivi - A Tragic Love Story"۔ The India Club, Inc.۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 دسمبر 2016الوسيط |url-status= تم تجاهله (معاونت)
^ ابSanjay Dodia (August–September 2012)۔ "'મળેલા જીવ' નવલકથામાં ગ્રામચેતના"۔ Journal of Humanity (بزبان گجراتی)۔ Knowledge Consortium of Gujarat, Department of Higher Education, Government of Gujarat۔ 1 (3)۔ ISSN2279-0233۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2016الوسيط |url-status= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |زبان= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |ناشر= تم تجاهله (معاونت)
↑Prasad Brahmabhatt (2010)۔ અર્વાચીન ગુજરાતી સાહિત્યનો ઈતિહાસ - આધુનિક અને અનુઆધુનિક યુગ (History of Modern Gujarati Literature – Modern and Postmodern Era) (بزبان گجراتی)۔ Ahmedabad: Parshwa Publication۔ صفحہ: 43–53الوسيط |بین الاقوامی معیاری کتابی عدد= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |ناشر= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |زبان= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |صفحات= تم تجاهله (معاونت)
↑Indian and Foreign Review۔ Publications Division of the Ministry of Information and Broadcasting, Government of India۔ 1985۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 ستمبر 2017الوسيط |ناشر= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |url-status= تم تجاهله (معاونت)
↑Ashish Rajadhyaksha، Paul Willemen (10 July 2014)۔ Encyclopedia of Indian Cinema۔ Routledge۔ صفحہ: 347۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 ستمبر 2017الوسيط |ناشر= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |url-status= تم تجاهله (معاونت); الوسيط |بین الاقوامی معیاری کتابی عدد= تم تجاهله (معاونت)