فاطمہ بنت عبد اللہ کا تعلّق لیبیا کے طرابلس سے تھا۔ آپ 1898ء میں طرابلس کے ایک شہر میں مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئی اور ان کی تربیت ان کے ماں نے خالص اسلامی اصولوں کی بنیاد پر کی جس کی وجہ سے فاطمہ کو اسلام سے زیادہ لگاؤ تھا اور دل میں اسلام کی خدمات کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔[6] فاطمہ بنت عبد اللہ البراعصہ قبیلہ کے سردار شیخ عبد اللہ کی اکلوتی بیٹی تھی۔
اسلامی لشکر کی سقائی
جو مسلمان دشمن کے خلاف میدان جنگ میں گئے تھے اس کے ہمراہ فاطمہ بھی تھیں۔[6] فاطمہ جذبہ شہادت سے مامور تھی، اس نے بھی میدان جنگ میں وہی کام کیا جو رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دور میں صحابیات کرام کیا کرتی تھیں۔[6] فاطمہ اپنا چھوٹا سا مشکیزہ اٹھا کر مجاہدین کو پانی پلانے اور زخمیوں کی تیمار داری میں لگی رہتی تھی۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اسلام اور مسلمانوں کے لیے قربانیاں دیں آک کے حکمران اپنی اولاد کو گرم ہوا بھی نہیں لگنے دیتے مگر شیخ عبد اللہ نے اپنی اکلوتی اور کم سن بیٹی کو بھی روکنے کی کوشش نہیں کی۔[6]
طرابلس میں دہشت گردی
جب اطالیہ نے طرابلس پر حملہ کیا تو طرابلس کے مسلمانوں نے اپنے آزادی اور خود مختاری کی حفاظت کے لیے تن دھن قربان کرنے کے لیے جذبہ کے ساتھ میدان جنگ میں کود گئے۔ طرابلس کی حکومت اس وقت زیادہ غریب تھی، ان کے پاس اسلحہ بارود کی کمی تھی جب کی حملہ آوار فوجیں جدید اسلحہ سے لیس تھی۔[6]
شہادت
فاطمہ 18 اللہ1912ء کو عصر کے وقت مجاہدین کا ایک دستہ اطالوی توپ خانے کو تباہ کرنے کے لیے آگے بڑھا تو کمسن مجاہدہ فاطمہ بنت عبد اللہ بھی ان کے ساتھ تھی۔ اس دوران مجاہدین کی اطالوی فوج کے ایک بڑے جتھے سے جھڑپ شروع ہو گئی
۔
جھڑپ میں 4 عرب مجاہدین زخمی ہوکر نیچے گر پڑے تو فاطمہ بھاگتی ہوئی ان کے پاس گئی اور اپنا مشکیزہ ایک مجاہد کے سینے پر رکھ دیا۔ وہ اپنے زخمی مجاہد بھائی کو پانی پلانا چاہتی تھی۔ اچانک ایک اطالوی سپاہی نے اسے گریبان سے پکڑ لیا۔ فاطمہ نے اس فوجی سے ایک دم اپنے آپ کو چھڑایا اور قریب پڑی ہوئی ایک زخمی مجاہد کی تلوار اٹھاکر اس زور سے اطالوی فوجی پر وار کیا کہ اس کے دائیں ہاتھ کا پنجہ کٹ کر لٹک گیا۔ اطالوی فوجی نے چیختے ہوئے پیچھے ہٹ کر بائیں ہاتھ سے اپنی بندوق اٹھائی اور اس معصوم مجاہدہ کو پے در پے تین گولیاں مار کر شہید کر دیا۔[6][7][8]
قابل فخر کارنامہ
فاطمہ کی شہادت نے تمام امّت مسلمہ کے بہادروں کا سر فخر سے بلند کر دیا اور باطل کے ایوانوں میں جب یہ بات گونجنے لگی کی مسلمانوں کو ذبح تو کیا جا سکتا ہے مگر ان کے پیدائشی حق سے ان کو محروم کیا جا سکتا ہے۔ تمام امّت مسلمہ نے ان کی شہادت پر انھیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔[6]برصغیر کے مشہور فلسفی شاعر علامہ محمد اقبال ؒ نے اسی واقعہ سے متاثر ہوکر اس ننھی مجاہدہ پر فاطمہ بنت عبداللہ نظم لکھی اور فاطمہ بنت عبد اللہ کے کردار کو زندہ جاوید کر دیا۔اس نظم میں ایک طرف علامہ محمد اقبال نے فاطمہ کو اپنے مخصوص انداز میں بھر پور خراجِ عقیدت پیش کیا اور دوسری جانب اس کی شہادت کے ایسے زاوئیے نمایاں کیے ہیں جو مسلمانوں میں جذبہ جہاد کے ساتھ مستقبل کے بارے میں امید افزا جذبات بھی پیدا کر تے ہیں ۔[9][6]
فاطمہ! تو آبروئے امت مرحوم ہے
ذرہ ذرہ تيري مشت خاک کا معصوم ہے
يہ سعادت ، حور صحرائي! تري قسمت ميں تھي
غازيان ديں کي سقائي تري قسمت ميں تھي
يہ جہاد اللہ کے رستے ميں بے تيغ و سپر
ہے جسارت آفريں شوق شہادت کس قدر
يہ کلي بھي اس گلستان خزاں منظر ميں تھي
ايسي چنگاري بھي يارب، اپني خاکستر ميں تھي!
اپنے صحرا ميں بہت آہو ابھي پوشيدہ ہيں
بجلياں برسے ہوئے بادل ميں بھي خوابيدہ ہيں!
فاطمہ! گو شبنم افشاں آنکھ تيرے غم ميں ہے
نغمہ عشرت بھي اپنے نالہ ماتم ميں ہے
رقص تيري خاک کا کتنا نشاط انگيز ہے
ذرہ ذرہ زندگي کے سوز سے لبريز ہے
ہے کوئي ہنگامہ تيري تربت خاموش ميں
پل رہي ہے ايک قوم تازہ اس آغوش ميں
بے خبر ہوں گرچہ ان کي وسعت مقصد سے ميں
آفرينش ديکھتا ہوں ان کي اس مرقد سے ميں
تازہ انجم کا فضائے آسماں ميں ہے ظہور
ديدئہ انساں سے نامحرم ہے جن کي موج نور
جو ابھي ابھرے ہيں ظلمت خانہء ايام سے
جن کي ضو ناآشنا ہے قيد صبح و شام سے
جن کي تاباني ميں انداز کہن بھي، نو بھي ہے
اور تيرے کوکب تقدير کا پرتو بھي ہے
امت کا نوحہ
علامہ نے اپنی نظم میں جہاں فاطمہ بنتِ عبد اللہ کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا ہے وہیں امتِ مرحومہ کا نوحہ بھی بیان کیا ہے کہ اس وقت کے خلیفہ و امیر المومنین نے اپنی اس نہتی رعایا کو ظالموں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کر لیا تھا۔ دوسرا علامہ کی زمانہ شناس نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ یہ تحریک دبنے والی نہیں جس قوم کی بچیوں کے جذبۂ شہادت کا یہ عالم تھا اس قوم کے جوانوں اور جہاں دیدہ برزگوں کا کیا عالم ہوگا۔ علامہ کی اور بہت سی مبنی بر حقیقت باتوں میں سے- یہ بھی ایک پوری ہونے والی بات تھی کہ یہ تحریک اپنے منطقی منزل پر پہنچ کر رہی-