چودہویں صدی میں گجرات میں اردو زبان کی خدمت کرنے والوں میں اہم شخصیت شاہ علی جیو گام دھنی (م۔ 1565) کی تھی۔ ممتاز صوفی شاعر تھے۔
نام و نسب
والد کا نام شاہ ابراہیم بن عمر الحسینی تھا۔ باپ کی طرف سے سلسلہ نسب سید احمد کبیر رفاعی اور ماں کی طرف سے عبد القادر جیلانی تک پہنچتا ہے۔ گام دھنی (گاؤں کا مالک) ان کا لقب اس وجہ سے تھا جس کو جو چاہتے تھے دے دیتے تھے۔
عام حالات
ان کا نقش نگیں "اللہ باقی محمد ساقی" تھا۔ برگ تبنول کی شکل میں یہ نقش کندہ تھا۔ جو شجرے مریدوں کو دیے جاتے تھے ان پر اس کی مہر لگائی جاتی تھی۔ شاہ صاحب وحدت الوجود کے قائل تھے۔ باہر سے جو بزرگ گُجرات آتے ان کے یہاں قیام کرتے۔ شیخ بہاء الدین برناوی گجرات آئے تو شاہ علی کے مہمان ہوئے۔ شاہ صاحب نے ایک ان کو اپنا ہندی کلام سنایا۔ شیخ نے اسے پسند کیا۔
رائے کھیڑ (احمدآباد) میں شاہ غزنی کے مقبرہ کے پاس ان کا مزار مرجع عام و خاص ہے۔ شاہ علی جیو گام دھنی کی نظموں کا مجموعہ "جواہر اسرار اللہ" ہے۔ "مرآت احمدی" کے مصنف محمد حسن نے اسے طرز فکر اور معنی کے لحاظ سے "دیوان مغربی" کے ہم پایہ خیال کیا ہے۔ ان کے کلام کو ان کے ایک مرید ابو الحسن فتح محمد ابن عبد الرحم القریشی الاحمد نے مرتب کیا تھا۔ ابتدا میں ایک فارسی دیباچہ اور بارہ شعروں کی مدحیہ نظم ہے۔ بعد میں معتقدین کے اصرار پر ان کے پوتے شاہ ابراہیم نے ایک مبسوط دیباچہ لکھ کر دوبارہ مرتب کیا۔ اس میں پہلی ترتیب کا ذکر ہے۔ مدحیہ نظم بھی شامل ہے۔ پہلے عربی میں دیباچہ ہے۔ پھر فارسی دیباچہ ہے۔
ان کا کلام توحید اور وحدت الوجود کے اسرار و رموز سے بھرا ہوا ہے۔ اس میں سوز و گداز ہے۔ خیالات اور جذبات ہندوستانی ہیں۔ چند نظموں میں فارسی مضامین بھی ہیں۔ میلاد نبی، مدح شاہ احمد کبیر، آفرینش کے عنوان سے عمدہ نظمیں ہیں۔ بارہ ماسہ کی طرز کی ایک سہ حرفی بھی لکھی ہے۔
دیوان
انھوں نے اپنی یادگار ایک اردو دیوان ’’جواہر اسرار اللہ ‘‘ لکھی ہے۔۔ جیوگام دھنی کے کلام کو ان کے ایک شاگرد نے ترتیب دیا اس میں ان کی شاعری کے متعلق لکھتا ہے۔ ’’دربیان توحید و اسرار بالفاظ گجری بطریق فرمودہ‘‘ یہ نام گجری اور گوجری دکنی اسلوب بیان کے لیے مشہور رہا ہے۔[1]
حوالہ جات