سفید ہاتھی (انگریزی: White elephant) کسی ایسی ملکیت کو کہا جاتا ہے جس کا مالک اس سے آسانی سے چھٹکارا نہیں پا سکتا ہے اور اس کی قیمت، خصوصًا اس کے رکھ رکھاؤ کا خرچ اس چیز کی فائدہ مندی سے کہیں زیادہ ہے۔ جدید استعمالات میں یہ کوئی بھی شے، تعمیری منصوبہ، اسکیم، کاروباری پہل، سہولت وغیرہ ہو سکتی ہے جو بہت زیادہ خرچ پر محیط ہے مگر اس کا کوئی استعمال یا قدر نہیں ہے۔ [1]
پس منظر
اس اصطلاح کا مصدر مقدس سمجھے جانے والے سفید ہاتھی تھے جو جنوب مشرقی بادشاہ برما، تھائی لینڈ، لاؤس اور کمبوڈیا میں رکھتے تھے۔[2] سفید ہاتھیوں کی ملکیت کو ان ممالک میں ایک علامت کے طور پر سمجھا جاتا تھا کہ حکم ران انصاف اور اقتدار کی پاس داری سے اپنی حکومت میں امن اور ترقی قائم کر رہے ہیں۔ یہ خیال اب بھی تھائی لینڈ اور میانمار میں زبان زد عام ہے۔ یہ ہاتھی زبر دست پیسوں کی لاگت پر رکھے جاتے تھے، تاہم عام ہاتھیوں یا کچھ اور جانوروں کے مقابلے یہ زیادہ فائدہ نہیں پہنچاتے تھے۔ جدید دور میں کئی بار غیر ضروری بوجھ اور خرچ کی بھی سفید ہاتھی سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ مثلًا مہنگائی کو بھی مجازی انداز میں سفید ہاتھی کہا جاتا ہے۔[3]
حکومت کی تعمیرات میں سفید ہاتھی کی تشبیہ
24 نیوز ایچ ڈی کی اطلاع کے مطابق پاکستان میں تحریک انصاف اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنی پولیسیوں سے عوام کومطمئن کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہی ہے اور اس کے کئی منصوبے ناکام اور سفید ہاتھی ثابت ہو رہے ہیں۔ ارب روپے مالیت سے شروع کیا جانے والا پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبہ سفید ہاتھی بن گیا، جس کے لیے محکمہ ٹرانسپورٹ پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ کے لیے مزید 10 ارب روپے مانگ لیے، مزید یہ کہ کرائے میں سبسڈی نہ دی گئی تو بی آر ٹی منصوبہ چلانا بھی مشکل ہوگا۔ 23 مارچ2019ء کو منصوبے کا صرف نمائشی افتتاح ہوا۔ اس سال جون یا جولائی میں بی آر ٹی مسافروں کے لیے باقاعدہ کھول دیا گیا، صوبائی حکومت کے پاس اس وقت صرف 20 بسیں ہیں مئی تک مزید بسیں آجائیں گی، منصوبے پر اب تک 67ارب روپے کی لاگت آئی ہے، کرایے میں سبسڈی دینے سے متعلق فیصلہ حکومت پر منحصر ہے،فی سٹاپ 15 روپے لینے کی صورت میں سالانہ 18-20 کروڑ روپے دینا ہون گے۔ اس طرح سے بھارہ سبسڈی کے بغیر واحد میگا پراجیکٹ چلانا ناممکن ہے۔ [4]