حضرت ثعلبہ بن ابی مالک ؓ
|
معلومات شخصیت
|
---|
|
|
درستی - ترمیم |
حضرت ثعلبہ بن ابی مالک ؓ اہل کتاب صحابی رسول تھے۔
نام ونسب
ثعلبہ نام، ابویحییٰ کنیت، حضرت ابومالک رضی اللہ عنہ صحابی کے جن کا تذکرہ آگے آئے گا، صاحبزادے تھے، اصلی وطن یمن تھا، آپ کے والد ترک وطن کرکے مدینہ آئے اور یہیں سکونت اختیار کرلی۔
اسلام
اپنے والد کی طرح خود بھی حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے اور بہ اختلافِ روایت شرفِ صحبت سے بھی سرفراز ہوئے(ان کے صحابی ہونے میں ارباب رجال کی روایتیں مختلف ہیں، اصابہ اور تاریخ کبیر کی روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ غزوۂ بنی قریظہ کے وقت اچھے خاصے بڑے تھے جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ جب انھوں نے اسلام قبول کیا ہوگا تووہ سنِ شعور کوپہنچ گئے تھے، اسدالغابہ میں ہے ولد على عهد النبي صلى الله عليه وسلم کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پیدا ہوئے، جس سے ان کی صحابیت اور عدم صحابیت دونوں کا احتمال ہے، ابن حاتم اور ابن حبان نے ان کوزمرۂ تابعین میں شمار کیا ہے، یحییٰ ابن معین فرماتے ہیں لَہُ رویۃ انھیں دیدارِ نبوی حاصل ہوا، حافظ ابن حجر نے اصابہ میں تواحتمال کا اظہار کیا ہے؛ لیکن تہذیب التہذیب میں لکھا ہے کہ حضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہے اور ان سے بغیر کسی واسطے کے روایت بھی کی ہے، ان تمام بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ زیادہ ترارباب رجال کا رحجان ان کی صحابیت کی طرف ہے؛ گوتابعین میں داخل کرنے والے حضرات کے اقوال بھی بالکل نظر انداز نہیں کیے جا سکتے؛ لیکن میں نے حافظ ابن حجر کی اتباع میں انھیں صحابہ رضی اللہ عنہم کی فہرست میں رکھا ہے)۔
اصابہ میں مصعب الزبیری کی ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ غزوۂ بنی قریظہ کے روز جو بچے نابالغ ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیے گئے تھے، ان میں حضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہ بھی تھے، امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے تاریخ الکبیر میں لکھا ہے کہ:
كان كبيرا أيام بنى قريظة۔
[1]
ترجمہ:غزوۂ بنوقریظہ کے زمانے میں وہ بڑے تھے۔
(التاریخ الکبیر میں امام کا لفظ ہے؛ لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کا یہی قول تہذیب میں نقل کیا ہے، جس میں ایام بنی قریظہ ہے؛ اگرایام کا لفظ صحیح ہے تومعنی یہ ہوئے کہ وہ عزوۂ بنی قریظہ کے وقت اچھی خاصی عمر کے تھے اور اگرامام کا لفظ مانا جائے تواس مشہور روایت سے تطابق ہوجائے گا، جس میں ہے کہ وہ بنی قریظہ کے امام تھے)۔
بخاری کی اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بالکل بچے نہیں تھے؛ بلکہ سنِ شعور کوپہنچ چکے تھے؛ لیکن بہرحال ان کے زمانہ قبولِ اسلام کے متعلق کوئی صحیح تعیین نہیں کی جا سکتی۔
وفات
سنہ وفات کا علم نہیں ہو سکا۔
اولاد
ان کی دواولاد ابومالک اور منظور کا ذکر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تہذیب میں کیا ہے؛ لیکن دوسرے ارباب رجال نے صرف ابومالک کا نام لیا ہے۔
علم و فضل
حضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہ کا گھرانہ علم و فضل میں ممتاز تھا، آپ کے والد حضرت ابومالک رضی اللہ عنہ عہد عتیق صاحب روایت تھے، خود حضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور بڑے بڑے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے روایتیں کی ہیں، مثلاً حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت حارثہ رضی اللہ عنہ بن نعمان، حضرت جابر رضی اللہ عنہ [2] اور ابن عمر رضی اللہ عنہ [3] وغیرہ، ان میں سے حسب ذیل حضرات نے روایتیں کی ہیں، ان کے دونوں صاحبزادے، امام زہری، مسور بن رفاعہ، محمد بن عقبہ، صفوان بن سلیم [4]، ابن الہات۔
[5]
امامت
قبیلہ بنو قریظہ کے جولوگ مسلمان ہو گئے تھے، ان کے نماز کی امامت کم عمری کے باوجود حضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہ ہی کے سپرد تھی، تہذیب میں ہے: وكان ثعلبة يؤم بني قريظة غلاما۔
[6]
ترجمہ:حضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہ بچپن کے باوجود بنی قریظہ کی امامت کرتے تھے۔
اس سے بھی معلوم ہوا کہ وہ غزوۂ بنی قریظہ کے وقت کم سن تھے۔
حوالہ جات
- ↑ (تاریخ الکبیر:1/173)
- ↑ (تہذیب، ذکر ثعلبہ)
- ↑ (تاریخ الکبیر، ذکر ثعلبہ)
- ↑ (تہذیب، ذکرثعلبہ)
- ↑ (تاریخ الکبیر)
- ↑ (تہذیب التہذیب:2/23، شاملہ، موقع یعسوب)