بھارت میں آبرو ریزی (Rape in India) بھارت میں خواتین کے خلاف ہونے والا چوتھا سب سے زیادہ عام جرم ہے۔[1][2]
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی سالانہ رپورٹ 2013ء کے مطابق بھارت بھر میں 2012ء میں 24923 عصمت دری کے مقدمات درج کیے گئے۔[3]
ان میں سے 24470 رشتہ دار یا پڑوسی کی طرف سے کیے گئے؛ دوسرے لفظوں میں 98 فیصد مقدمات میں شکار خواتین عصمت دری کرنے والے کو جانتی تھیں۔[4]
2012ء کے اعداد و شمار کے مطابق بھارتی شہروں میں نئی دہلی میں عصمت دری کی تعداد سب سے زیادہ ہے، جبکہ جبل پور عصمت دری کے فی کس واقعات کے لحاظ سے سب سے آگے ہے۔[5][6]
2012ء کے بعد بھارت میں کئی عصمت دری کے واقعات پر بڑے پیمانے پر میڈیا کی توجہ حاصل ہوئی اور بہت احتجاج بھی کیا گیا۔[7][8]
جس کی بنیاد پر بھارتی حکومت نے عصمت دری اور جنسی تشدد کے جرائم کے لیے پینل کوڈ میں اصلاحات کیں۔[9]
اجتماعی آبرو ریزی
چونکہ آبرو ریزی میں رضامندی نہیں بلکہ جبر کا پہلو ہوتا ہے، اس لیے بیش تر معاملوں میں مجرم ایک نہیں بلکہ کئی افراد ہوتے ہیں، اگر چیکہ بھارت میں انفرادی آبرو ریزی، می ٹو تحریک، جنسی ہراسانی اور خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے بے شمار دیگر واقعات بھی رو نما ہو چکے ہیں اور ہو رہے ہیں۔
حوالہ جات
↑Radha Kumar (1993)۔ The History of Doing: An Account of Women's Rights and Feminism in India۔ Zubaan۔ صفحہ: 128۔ ISBN978-8185107769
↑NCRB, Crime against womenآرکائیو شدہ(Date missing) بذریعہ ncrb.nic.in (Error: unknown archive URL), Chapter 5, Annual NRCB Report, Government of India (2013), page 81
↑National Crimes Record Bureau, Crime in India 2012 - Statistics Government of India (May 2013)
↑Vasundhara Sirnate (1 February 2014)۔ "Good laws, bad implementation"۔ Chennai, India: The Hindu۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 فروری 2014الوسيط |url-status= تم تجاهله (معاونت)