ایران کے جنوب مغربی شہر اہواز میں 22 ستمبر 2018ء بروز ہفتہ کو ایک فوجی پریڈ پر حملہ کیا گیا۔[3][4] مقاومت ملی اہواز[1] اور داعش[1] دونوں نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔[5] 2010ء کے چابہار خودکش بم دھماکوں کے بعد یہ سب سے زیادہ مہلک ترین دہشت گرد حملہ تھا۔
حملہ
ایران عراق جنگ کے آغاز کی سالگرہ کی مناسبت سے فوجی پریڈ کا اہتمام کیا گیا تھا۔[6][3] ایران میں صبح 9 بجے مورخہ 22 ستمبر 2018ء کو فوجی وردی میں ملبوس چار مسلح حملہ آوروں نے قریبی پارک سے فائرنگ کی۔[7] عینی شاہدین کے مطابق، ”حملہ آوروں نے پہلے اس چبوترے پر فائرنگ کی جہاں اعلیٰ حکام موجود تھے جس کے بعد انھوں نے تماشائیوں اور پریڈ کرتے فوجی اہلکاروں پر اندھا دھند گولیاں برسائیں۔“[8]
جانی نقصانات
حملہ آور
پہلے میڈیا نے خبر دی کہ چاروں حملہ آور مارے گئے۔[2][7] بعد میں بتایا گیا کہ پانچواں حملہ آور جسے پہلے گنا نہیں کیا گیا تھا بھی مارا گیا تھا۔[9]
شہری اور فوجی
حملہ میں تقریباً 29 افراد ہلاک ہوئے جن میں کچھ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سپاہی بھی شامل تھے اور بچوں سمیت 70 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔[10][11][12] زیادہ تر کو تشویشناک حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا۔[13]
ذمہ داری
مقاومت ملی اہواز نے سب سے پہلے دہشت گرد حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی[1] اور داعش نے بھی ذمہ داری قبول کی۔[1] لیکن مقاومت ملی اہواز نے داعش کے دعوے کو مسترد کر دیا۔
ایرانی میڈیا کے مطابق حملہ ”تکفیری مسلح افراد“ نے کیا تھا۔[14]
ردِ عمل
رہبر معظم ایران سید علی خامنہ ای نے اپنی ویب سائٹ پر لکھا: ”اس جرم کے پیچھے امریکا اور خطے میں اس کی غلام اور نوکر حکومتوں کا ہاتھ ہے جنھوں نے ایران میں بے امنی پھیلانے کو اپنا مقصد بنا رکھا ہے“[2] انھوں نے سیکیورٹی فوج کو حکم دیا ہے کہ اس حملے کے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔[2] ایران کے وزیر خارجہ نے نیدرلینڈز، مملکت متحدہ اور ڈنمارک کی حکومتوں سے کہا کہ ”حملے کی مذمت کریں اور اس میں ملوث افراد کو ایران کے حوالے کریں تاکہ انھیں انجام تک پہنچایا جا سکے۔“[2]
حوالہ جات