اردو کی آخری کتاب (تصنیف)

”اردو کی آخری کتاب“محمد حسین آزاد کی” اردو کی پہلی کتاب “کی دلچسپ پیروڈی ہے۔ پیروڈی یونانی لفظ پیروڈیا سے نکلا ہے۔ جس کے معنی ہے ”جوابی نغمہ“ کے ہیں۔ اردو ادب میں طنز و مزاح کے اس حربے کو براہ راست انگریزی ادب سے لایا گیا ہے۔ جس میں لفظی نقالی یا الفاظ کے ردو بدل سے کسی کلام یا تصنیف کی تضحیک کی جاتی ہے۔ یہ کتاب اردو ادب میں ایک کامیاب پیروڈی سمجھی جاتی ہے۔ کیونکہ ابن انشاءنے پیروڈی کے فن کو سمجھ کر برتا ہے۔

آزاد کی اس کتاب پر ”پطرس بخاری“ ابن انشاءسے پہلے ہاتھ صاف کر چکے تھے۔ لیکن اُن کا نشانہ چند ابتدائی اسباق تھے اور دوسرا دونوں مزاح نگاروں کے نقطہ نظر میں واضح فرق ہے۔ پطرس کا نقطہ نظر محض تفریحی ہے جبکہ ابن انشاءمعاشرتی ناہمواریوں اور ناانصافیوں کو نشانہ بناتے ہیں اور اُ ن کا مقصد اصلا ح ہے۔

”اردو کی آخری کتاب“ 1980ءکے ہنگامی حالات کے پس منظر میں لکھے گئے روزنامچوں کا مجموعہ ہے اگرچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اخبار کی زندگی ایک روزہ ہوتی ہے اور صحافتی نثر ادبی نثر سے مختلف ہوتی ہے۔ لیکن ابن انشاءکا معاملہ برعکس ہے نہ تو سطحی کالم نویس تھے کہ ان کے کالم وقتی لحاظ سے تو جوش پیدا کرتے لیکن زمانے کی گرد انھیں ختم کر ڈالتی ہے اور نہ انھوں نے صحافتی زبان کو ادبی زبان میں ضم ہونے دیا۔ بلکہ اعتدال کے ساتھ عام قاری اور ادب کے طالب علم دونوں کو متاثر کیا۔

1970ء میں ملک جس سیاسی ابتری اور جوشیلی سیاست کا شکار تھا۔ اس کوایک حساس فنکار نے کس طرح محسوس کیا ہے اور برتنے کے لیے طنز و مزاح کا سانچہ اختیار کیاہے وہ قابل رشک ہے ہم دیکھتے ہیں کہ کسی کسی موقع پر ابن انشاءبھی اس ہنگامی صورت حال سے اضطراری کیفیت سے گذر رہے ہیں۔ لیکن یہ تاثر زیادہ نہیں۔ اردو کی آخری کتاب کا تاریخ کا حصہ اس بات کی غمازی کرتا ہے۔

اردو کی آخری کتاب کا اسلوب رواں دواں اور سلیس ہے ابن انشاءنے آزاد کے انداز کو اپنانے کی کوشش کی ہے اور بنیادی طور پر ابن انشاءشاعرانہ مزاج کے حامل ہیں۔ اس لیے اُن کی نثر میں قافیہ پیمائی، لفظی تکرار اور موسیقیت کااحساس گہرا ہے۔ پطرس نے مزاح کی ابتداءدیباچے سے کی تھی جبکہ ابن انشاءنے یہ انتظار بھی نہیں کیا۔ اور کتاب کے سرورق پر (نامنظور کردہ ٹیکسٹ بک بورڈ) کا عنوان دے کر ہنسی کو تحریک دی ہے۔ پوری کتاب نجمی کے 101 کارٹونوں کے ساتھ نئی بہار دکھاتی ہے۔ ان کارٹونوں کی وجہ سے کتاب کی دلچسپی اور دلکشی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس لیے خالد احمد یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ، ” اردو کی آخری کتاب کے مصنف دو ہیں ایک ابن انشاءاور دوسرے نجمی۔ “

مشتا ق احمد یوسفی جو خود بھی مزاح کے شہسوار ہیں ان کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں، ” بے شمار خوبصورت لیکن متروک اور بھولے بسرے الفاظ کوان کی رواں دواں نثر نے ایک نئی زندگی اور توانائی بخشی ہے اردو مزاح میں اُن کا اسلوب اور آہنگ نیا ہی نہیں ناقابل تقلید بھی ہے۔ “

کتاب کی پیش کش کا انداز بہت ہی بہترین ہے کتاب کا ابھی ایک صفحہ بھی نہیں الٹا گیا اور مسکراہٹ قاری کے لبوں پر کھیلنے لگتی ہے۔ یہاں چند مثالیں دے کر اس کتاب کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ کتاب بے شمار مختلف اور دلکش، طنزیہ اور مزاحیہ فقروں سے بھر ی پڑی ہے۔ چنانچہ کتاب کے ابتدائی ابواب میں درج سوالات، سبق آموز کہانیاں، ریاضی کے قاعدے، جانوروں کا بیان، پرندوں کا احوال، رامائن اور مہا بھارت کے زمانے سے لے کر مہاراجا رنجیت سنگھ کے دور تک کی تاریخ، جغرافیے کے اسباق، مناظر قدرت کے تذکرے، ابتدائی سائنس اور گرائمر کو نظر انداز نہیں کیا گیا ہے۔ اور تو اور مولانا شیخ سعدی کی حکایات کو بھی نہیں بخشا گیا ہے۔

طنزیہ اسلوب

کتاب کی سب سے اہم خصوصیت اس کا طنزیہ انداز بیان ہے ان کا طنز تلخ حقائق پر مبنی ہے لیکن اس میں تلخی نہیں۔ زبان کی شیرینی نے اس کی تلخی کو چھپا لیا ہے۔ لہٰذا اس کے طنز کو آسانی سے گوارا کیا جا سکتا ہے۔ خلائی دور پر طنز، صنعتی دور پر طنز، پتھر کے دور پر طنز، اخبار پر طنز، کراچی کارپوریشن پر طنز، ابن انشاءکی طنز کے چند جھروکے ہیں۔ اس کے علاوہ مصنف نے کتاب کے شروع میں خبردار کیا ہے کہ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے یہ ملحوظ رکھاجائے کہ یہ کتاب صرف بالغوں کے لیے ہے۔ یعنی ذہنی بالغوں کے لیے اور یہ کہ اسے چھوٹی عمر کے طالب علموں سے دور رکھا جائے۔ ورنہ مولف نتائج کا ذمہ دار نہ ہوگا۔

ابن انشاءکو مت پڑھ
ورنہ تیرا بیڑا پار نہ ہوگا
اور ہم سے کوئی نتائج
کا ذمہ دار نہ ہوگا

ان کی اس تنبیہ کا اندازہ جلد ہونے لگتا ہے جب اسباق کے آخر میں اس قسم کے سوالات پوچھتے نظرآتے ہیں کہ
”علم بڑی دولت ہے لیکن جس کے پاس علم ہوتا ہے اس کے پاس دولت کیوں نہیں ہوتی اور جس کے پاس دولت ہوتی ہے اس کے پاس علم کیوں نہیں ہوتا؟“
کتاب کاآغاز ایک دعا سے ہوتا ہے اور دعا کایہ جملہ کہ ،
”انسان وہی چیز مانگتا ہے جو اس کے پاس نہیں ہوتی۔ “ سادگی و پرکاری کے ساتھ یہ بات ایک گہری معنی بھی رکھتی ہے اور یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ہم لوگ مادی اشیاءکے علاوہ روحانی پاکیزگی اور بالیدگی سے محروم ہو گئے ہیں۔ ملک میں بڑھتے ہوئے صوبائی تعصب کی طر ف واضح اشارہ ملتا ہے۔ یعنی دنیا کے مختلف ملکو ں میں ایک قوم آبادہے اور ہمارے ہاں کوئی، پنجابی ہے کوئی پٹھان، کوئی سندھی کوئی بلوچی۔ اس سبق کا آخری فقرہ اتنا تیکھا ہے کہ اس کی مثا ل طنزیہ ادب میں نہیں ملتی ۔
” پھر الگ ملک کیوں بنایا تھا غلطی ہوئی معاف کیجیے گا آئندہ نہیں بنائیں گے۔ “
کتاب کو پڑھ کر انکشاف ہوتا ہے کہ ابن انشاءکاسیاسی اور معاشرتی شعور کتنا پختہ اور متوازن ہے وہ کسی مخصوص نظریے کی عینک نہیں لگاتے اور حقیقت یہ ہے کہ وہ منظر کو اُس رخ سے دیکھتے ہیں جس رخ میں ہمیں دیکھنے کی آرزو ہوتی ہے۔ اس لیے قاری اُن کے زاویہ نظر سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔ اور اُن طنز کو گوارا کر لیتاہے۔

تمثیلی انداز رمزیہ انداز

اس کتاب کا انداز کہیں تمثیلی اور کہیں رمزیہ ہے اُن کا ہر حربہ اور تجربہ حد درجہ کامیاب ہے۔ جس میں ہماری قومی کوتاہیوں کا ذکر بھی ہے اور انفرادی خود غرضیوں کا تذکرہ بھی وقتی فائدے کے لیے ناجائز ذرائع پر ایمان کی داستان کا بیان بھی ہے اور اس دور کے حکمرانوں کی نااہلیاں اور حماقتیں بھی شامل ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ ایسے لطیف او ر شگفتہ انداز میں ہے کہ قاری دیر تک اس سے لطف انداز ہوتا رہتا ہے۔ حکمرانوں کے اردگرد خوشامدیوں کی کمی نہیں۔ ”دین الٰہی“ کے عنوان سے ایسے لوگوں کو موضوع بنایا گیا ہے جو حکمرانوں کے اردگرد خوشامد کرتے ہیں اوریہ ایسا موضوع ہے جو ہر زمانے میں رائج رہا ہے اور آئندہ بھی ہمیشہ تازہ رہے گا۔
”چڑھتے سورج کی پوجا کرنا اس مذہب کا بنیادی اصول تھا۔ مرید اکبر کے گرد جمع ہوتے تھے اور کہتے تھے کہ اے ظل الٰہی تو ایسا دانا فرزانہ ہے کہ تجھ کو تا حیات سربراہ مملکت یعنی بادشاہ وغیر ہ رہنا چاہیے۔ اور تو ایسا بہادر ہے کہ تجھے ہلال جرات ملنا چاہیے۔ بلکہ خود لے لینا چاہیے۔ پرستش کی ایسی قسمیں آج بھی رائج ہیں لیکن اُن کو دین الٰہی نہیں کہتے۔ “
”ہمار اتمہار خدابادشاہ“ اور ”برکات حکومت انگلیشیہ “ میں ابن انشاءنے آزادی کے بعد بھی رہ جانے والی ناہمواروں کا بیان کیا ہے۔

ریاضی کا حصہ

کتاب میں ریاضی کا حصہ بھی بہت دلچسپ ہے یہاں ابن انشاءکی طبیعت کی روانی قابل دید ہے جس سے مزاح کے شرارے پھوٹتے ہیں۔ لیکن مزاح پیدا کرنے کی کوشش شعوری نظر نہیں آتی۔ بلکہ ایک شرارت بھرا تبسم ہے جو مصنف کے ہونٹوں پر مسکراتا ہے۔ وہ معمولی چیزوں کے غیر معمولی پہلوئو ں کو سامنے لانے پر قدرت رکھتے ہیں۔ مثلاً حسابی قاعدوں میں جمع تفریق اور تقسیم کے قاعدے میں طنز کا تیز نشتر لیے ہوئے ہے۔

جمع

جمع کا قاعدہ مختلف لوگوں کے لیے مختلف ہے عام لوگوں کے لیے ایک جمع ایک برابرڈیڑھ ہے کیونکہ آدھا انکم ٹیکس والے لے جاتے ہیں تجارت کے قاعدے سے ایک جمع ایک کا مطلب گیارہ ہے رشوت کے قاعدے سے حاصل جمع اور بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔ “

تقسیم

اگر آپ کو مکمل پہاڑہ مع گر یاد ہو تو کسی کو تقسیم کی کانوں کان خبر نہیں ہو سکتی آخر ٢١ کروڑکی دولت کو 22 خاندانوں نے آپس میں تقسیم کیا ہی ہے کسی کو پتہ چلا؟۔“

الجبرا

حساب اعداد کا کھیل ہے الجبرا حرفوں کا ان میں سب سے مشہور حرف لا ہے جسے لہ کہتے ہیں بعض رشتوں میں الجبراء یعنی جبر کا شائبہ ہوتا ہے۔ جسے مدر ان لا۔ فادر ان لا وغیرہ۔ مارشل لا کو بھی الجبرے کا ایک قاعدہ سمجھنا چاہیے۔ “
یہاں ابن انشاءکے ہاتھوں سے مزاح کا دامن چھوٹ گیا ہے اور و ہ اپنے طنز سے معاشرتی ناہمواریوں کی نشان دہی کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اُن کے لب و لہجے کی شگفتگی اور معصومیت نے قاری کی دلچسپی کو برقرار رکھا ہے۔ اور اس طنز کو گوارا بنا دیا ہے۔

تاریخ مغلیہ

کتاب کا سب سے کمزور حصہ ”تاریخ مغلیہ“ سے شروع ہوتا ہے جب ابن انشاءمکمل طور پر ہنگامی حالات کو موضوع ِ مزاح بناتے ہیں۔ اس حقیقت سے تو کسی کو انکار نہیں کہ جب یہ اخباری کالم لکھے گئے ہوں گے تو بلا شبہ قارئین کے لیے ان میں غیر معمولی دلچسپی اور جاذبیت کا سامان تھا لیکن ادبی نقطہ نظر سے ایسی تحریروں میں زندہ رہنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ اور بعد میں آنے والوں کے لیے ایسے فن پاروں میں لطف کا کوئی سامان نہیں رہتا۔ مثلا اس حصے میں ”بادشاہ اکبر “ فیلڈ مارشل ایوب خان کو کہا گیا ہے۔ اور نورتن اُس دور کے مرکزی حکومت کے وزراءہیں۔ لیکن آج کے قاری کویہ باب سمجھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔

گرائمر

کتاب میں گرامر کا سبق ایک کامیاب پیروڈی ہے انداز بیان میں تلخی کا نام و نشان نہیں اور مزاح نگاروں کے حربوں میں سے زبان و بیان کی بازیگری سے کام لیا گیا ہے۔ لیکن محاوروں کا استعمال گھسے پٹے انداز میں کیا گیا ہے اور اس میں بذلہ سنجی کا انوکھا روپ ملتا ہے۔
” فعل لازم وہ ہے جو کرنا لازم ہو مثلاً افسر کی خوشامد، حکومت سے ڈرنا، بیوی سے جھوٹ بولنا وغیرہ۔ “
”فعل متعدی عموماً متعدی امراض کی طرح پھیل جاتا ہے۔ مثلاً ایک شخص کنبہ پروری کرتا ہے دوسرے بھی کرتے ہیں۔ ایک رشوت لیتا ہے دوسرے اس سے بڑھ کر لیتے ہیں۔ “

کہانیاں

کتاب میں بچوں کے قدیم کہانیوں کو نئے نئے معنی پہنچائے گئے ہیں اور ڈھکے چھپے انداز میں مطلب کی بات کہنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن اس سے قاری نہ صرف حظ اٹھاتا ہے بلکہ مقصد تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ مثلاً ”کچھوا اور خرگوش“ کی کہانی میں کچھوا اپنے عظیم ماضی کی یادوں میں کھو جاتا ہے اور اس طرح دوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہے۔ اس میں مسلمان قوم کی خامی کو اجاگر کیاگیاہے۔ اس طرح ”ایک گرو کے دو چیلے “ میں اور ”اتفاق میں برکت ہے “ وغیرہ میں پاکستان کے چاروں صوبوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ”گوشت اور ہڈی “ اور ”ہم کیوں جاگیں “ نہایت شفاف اور فطری انداز میں کیے گئے طنز کی مثالیں ہیں جو 1970ءکے الیکشن کی یادگاریں ہیں لیکن آج بھی ہم اپنی سیاسی اور معاشی حالات کے پس منظر میں ان سے لطف اُٹھا سکتے ہیں ۔

قافیہ پیمائی

فنی لحاظ سے ابن انشاءنے جمالیاتی قدروں کو برتا ہے اور اس کے لیے انھوں نے ایک خاص طریقہ قافیہ پیمائی کا تیا ر کیا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ابن انشاءکو اردو نثر کے قدیم سرمائے سے نہایت دلچسپی رہی ہے اور بنیادی طور پر وہ ایک رومانی شاعر بھی ہیں۔ اس لیے ان کے اسلوب میں ایک روانی ہے اور زبان کی مٹھاس کا احساس ہوتاہے۔ فن کی اسی رنگینی کو ان کے حسین مزاح نے مزید نکھار دیا ہے۔ مثلاً
”جو زیادہ گنے کھائے گا شکر کی بیماری پائے گا سوئیاں لگوائے گا چلا ئے گا۔ مارا جائے گا۔ “ ”علم بڑی دولت ہے تو بھی اسکول کھول، علم پڑھا، فیس لگا، دولت کما، فیس ہی فیس، پڑھائی کی بیس، بس کے تیس، یونیفارم کے چالیس۔ “
”سبزی کا خیال چھوڑ، وٹامن سے منہ موڑ، مسور کی دال کھا اپنے منہ پہ نہ جا۔ “ ابن انشاءکی یہ کتاب انسانی زندگی اور اس کے بے شمار پہلوئوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے ابن انشاءکے لیے انتظامی پیچیدگیاں، انتخابات، حکایات، فرسودہ نظام تعلیم، تجارت، سیاست، رشوت اور تعصب ہر موضوع پر اظہار خیال کرنا آسان ہے۔

جغرافیہ

جغرافیے کے اسباب میں کولمبس کا امریکا دریافت کرنا ایک ایسا حادثہ قرار ددیا گیا ہے۔ جو نہ صرف مزاح کو چاشنی رکھتا ہے بلکہ ایک چھپا ہوا طنز بھی نمایاں ہے۔

” کولمبس نے جان بوجھ کر یہ حرکت کی یعنی امریکا دریافت کیا۔ بہرحال اگر یہ غلطی بھی تھی تو بہت سنگین غلطی تھی کولمبس تو مرگیا اس کا خمیازہ ہم لوگ بھگت رہے ہیں۔ “

ابن انشاءنے ہندوستانی اور پاکستانی سیاست کو ایک ہی پس منظر میں دیکھا ہے اور مشرقی قومیں اپنی رہنماؤں کے ساتھ جو سلوک روا رکھتی اس پر گہرا طنز کیا ہے اُس زبردست تنقید کو گاندھی جی کے باب میں دیکھا جا سکتا ہے۔

” ہمیں قائد اعظم کا ممنون ہونا چاہیے کہ خود ہی مرگئے سفارتی نمائندوں کے پھول چڑھانے کے لیے ایک جگہ پیدا کردی ورنہ ہمیں بھی گاندھی جی کی طرح ان کو مارنا پڑتا۔ “
تاریخ کے حصے میں ابن انشاءکی چابکدستی قابل تعریف ہے اور بعض نکات کو ایک جملہ کے اضافے سے کہیں سے کہیں پہنچا دیا ہے۔ مثلاً محمود غزنوی کے بارے میں لکھتے ہیں ”علامہ اقبال سے روایت ہے “ مثلاً
”جب عین لڑائی میں وقت نماز آتا محمود و آیاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو جاتے۔ باقی فوج لڑتی رہتی تھی۔ “

سائنسی اصطلاحات

یہ ابن انشاءکی شوخی طبع کا خاصہ ہے کہ انھوں نے علم کے ہر شعبے کونہایت شگفتگی او ر اختصار کے ساتھ مزاح کے انداز میں پیش کیا ہے ریاضی کی طرح سائنسی اصطلاحات سے بھی بھر پور فائدہ اُٹھا یا ہے۔ مادہ کی قسم گیس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ” گرمیاں آتی ہیں تو کراچی کا محکمہ واٹر سپلائی پانی کے نلکوں میں گیس سپلائی کرنے لگتا ہے اس لیے غسل خانوں میں روٹی پکاتے اور باورچی خانوں میں (پسینہ میں ) نہاتے دیکھے جاتے ہیں۔ “ ” کوئی شخص حکومت کی کرسی پر بیٹھ جائے تو اُس کے لیے اُٹھنا مشکل ہو جاتا ہے لوگ زبردستی اٹھاتے ہیں یہ بھی کشش ثقل کے باعث ہے۔ “

حکایات

ابن انشاءنے اس کتاب میں حکایات لقمان، حکایات سعدی اور حکایات انوار سہیلی کی طرز پر کچھ حکایات بھی بیان کی ہیں۔ چونکہ ان حکایات میں سے بیشتر الیکشن 1970ءکے دنوں کی یادگا ر ہیں اس لیے ابن انشاءنے الیکشن کے حوالے سے منشور، نعروں اور وزارتوں کے پیچھے بھاگنے والے ناعاقبت اندیش اور لالچی لوگوں کو نشانہ بنایا ہے۔ تقریباً ہر حکایت میں ایسے لوگوں کو اشاروں کنایوں میں سبق آموز درس دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ مثلاً متحدہ محاذ کے بارے میں فرماتے ہیں، ” ہر محاذ میں عموماً ایک شیر باقی گدھے ہوتے ہیں تقسیم شکار کی ہو یا ٹکٹوں کی اس میں شیر کا حصہ خاص ہوتا ہے۔ اس پر کوئی اعتراض کرتا ہے تو گدھا ہے۔

جانوروں اور پرندوں کا بیان

مختلف جانوروں اور پرندوں کا ذکر کرکے انسانوں کی خامیوں کو سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ انسان جو اشرف المخلوقات ہے جانور بن جانے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ مثلاً کتے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
”ایک کتا لیلیٰ کا بھی تھا لوگ لیلیٰ تک پہنچنے کے لیے اس پیار کرتے تھے اس کی خوشامد کرتے تھے جس طرح صاحب سیکرٹری یا چپڑاسی کی کرنی پڑتی ہے۔ “

مجموعی جائزہ

ابن انشاءنے عظمت خیال اور حساس تخیل کے ذریعے طنز و مزاح کو نیا انداز دیا ہے اور زندگی کے ہر پہلو سے انصاف کرنے کے پوری پوری کوشش کی ہے۔ ہمارے نثری ادب میں عمدہ مزاح نگاروں کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے اور ابن انشاءجیسی چلبلی نثر تو بالکل نایاب ہے ان کی شاندار پیروڈی ”اردو کی آخری کتاب“ میں ہماری ساری خود فریبیاں، قول و فعل میں تضاد، معاشرتی بے حسی، نمود و نمائش کی خواہش غرض زندگی کے ہر شعبے کی ناہمواریاں موجود ہیں لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایسا خوش دل ہنسنے ہنسانے والا شخص خود رنجیدہ نہیں ہے اُن کا دل اُن معاشرتی ناہمواریوں پر کڑھتا ہے اور ان کی روح الم زدہ ہے یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے زندگی کو الگ زاویہ نظر سے دیکھا۔ پرکھا اور بیان کیا۔ اردو گرد بکھری ہوئی ناہمواریوں کا گہرا سنجیدہ و شعور ابن انشاءکی تحریروں کا امتیازی وصف ہے۔ وہ ہر جگہ ایک ایسے خالق نظر آتے ہیں جو تخلیق کے کرب سہتا ہے بقول خالد اختر

ابن انشاءایک قدرتی مزاح نگار ہے جتنا زیادہ وہ لکھتا ہے اس کا اسلوب نکھرتا جاتا ہے۔

سحر انصاری صاحب کا کہنا ہے کہ

ابن انشاءکا مزاح لفظوں کا ہیر پھیر ، لطیفہ گوئی یا مضحک کرداروں کا رہین منت نہیں ہے بلکہ ان کا مزاح تخیل کی تخلیق ہے ۔

Strategi Solo vs Squad di Free Fire: Cara Menang Mudah!