ہندو متون، ہندو کتب مقدسہ یا ہندو ادب میں وہ تمام مخطوطات اور تاریخی کتابیں شامل ہیں جو ہندو مت میں موجود مختلف روایتوں سے منسلک ہیں۔ گو کہ ان میں کچھ متون ہندومت کی متنوع روایتوں میں مشترک ہیں لیکن بیشتر روایتوں کے متون انفرادی نوعیت کے حامل ہوتے ہیں۔[1][2] بعض اوقات ان تمام کتابوں پر ہندو کتب مقدسہ کا اطلاق کر دیا جاتا ہے۔ ان متون میں وید اور اپنشد سب سے زیادہ مشہور اور متداول ہیں۔ ہندومت کی متنوع فطرت کی بنا پر محققین کو "ہندو کتب مقدسہ" کی اصطلاح کی تعریف میں خاصی دشواری پیش آئی ہے۔[2][3] اکثر محققین نے بھگوت گیتا اور آگموں کو ہندو کتب مقدسہ میں شمار کیا ہے[2][3][4] جبکہ ڈومینک گڈآل بھاگوت پران اور یگیہ ولکے سمرتی کو بھی کتب مقدسہ کی فہرست میں شامل سمجھتے ہیں۔[2]
ہندو متون یا ہندو کتب مقدسہ کی دو تاریخی درجہ بندیاں ملتی ہیں، شروتی یعنی مسموعہ کتب یا روایات[5] اور سمرتی یعنی روایات محفوظہ۔[6] شروتی میں وہ کتابیں داخل ہیں جو انتہائی مستند اور قدیم مذہبی متون پر مشتمل ہیں، ان کے متعلق ہندوﺅں کا اعتقاد ہے کہ علم کا یہ لازوال خزانہ کسی انسان یا دیوتاؤں کے فرستادے کا تحریر کردہ نہیں بلکہ رشیوں سے سینہ بسینہ منتقل ہوا ہے۔ شروتی میں ہندومت کی اہم ترین اور مسلّم کتب مقدسہ شامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔[5][7]
شروتی میں چاروں وید اور ان سے متعلق چار اقسام کے متون سمہتا، برہمن، آرن یک اور ابتدائی اپنشد شمار کیے جاتے ہیں۔[8] شروتیوں (ویدک عہد کے متون) میں اپنشد واحد وہ کتابیں ہیں جنہیں ہندومت کی افضل ترین مقدس کتب سمجھا جاتا ہے اور ان کے ہندو معاشرے پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ہندو معاشرے کے افکار و نظریات اور رسوم و روایات پر انہی اپنشدوں کے مرکزی تصورات کی گہری چھاپ صاف دکھائی دیتی ہے۔[9][10] سمرتی یعنی کتب محفوظہ میں ان ہندو کتابوں کو شمار کیا جاتا ہے جو کسی مصنف سے منسوب ہیں۔[8] چونکہ عموماً ان کتابوں کا مواد کسی دوسری کتاب سے ماخوذ ہے اس لیے ہندومت میں انھیں شروتی سے کم مستند خیال کیا جاتا ہے۔[6] سمرتی ادب بہت وسیع اور متنوع اقسام کے متون پر مشتمل ہے۔ اس میں ویدانگ، ہندو رزمیہ داستانیں، سوتر، شاستر، ہندو فلسفیانہ کتابیں، پران، کاویہ یا شاعری، بھاشیہ یا تفسیریں اور سیاسیات، اخلاقیات، تہذیب، تمدن، ثقافت، فنون لطیفہ اور معاشرتی علوم پر مشتمل کثیر تعداد میں لکھے جانے والے نبندھ سب شامل ہیں۔[11][12]
عہد قدیم اور عہد وسطیٰ کے بیشتر ہندو متون سنسکرت میں تحریر کیے گئے ہیں البتہ کچھ کتابیں مقامی ہندوستانی زبانوں میں بھی لکھی ہوئی ملتی ہیں۔ عہد حاضر میں ان قدیم متون کو اردو سمیت بیشتر ہندوستانی زبانوں اور کچھ مغربی زبانوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔[2] عہد قدیم میں ہندو کتب مقدسہ کو حفظ کر کے انھیں اگلی نسلوں تک سینہ بسینہ منتقل کرنے کا رواج تھا۔ ایک ہزار سال قبل یہ تمام متون مخطوطات کی شکل میں محفوظ کیے گئے۔[13][14] تاہم ہندو متون کو نسلاً بعد نسل سینہ بسینہ منتقل کرنے کی روایت ختم نہیں ہوئی بلکہ یہ آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔[14]
وید
ہندو کتب مقدسہ کی خاصی بڑی تعداد پر وید کا اطلاق ہوتا ہے۔ ویدوں میں سمہتا اور برہمن بھی شامل ہیں جن کا زمانہ تصنیف 800 ق م سے قبل کا ہے۔[15] ویدوں کی تالیف سنسکرت شاعری کے اسلوب میں ہوئی ہے۔ ان کی قدامت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وید سنسکرت ادب کا قدیم ترین نمونہ اور ہندومت کی سب سے پرانی مقدس کتابیں ہیں۔[16][17][18] ہندوﺅں کے نزدیک وید اپوروشے یعنی غیر انسانی کاوش ہے۔ نیز ہندومت میں ویدوں میں درج علوم لازوال، غیر انسانی[19] اور غیر الوہی[20][21][22] سمجھے جاتے ہیں جنہیں رشیوں نے دیکھا، سنا اور نسلاً بعد نسل منتقل کیا۔[7]
ہندو مذہبی تاریخ میں ویدوں کو شروتی یعنی ادب مسموع بھی کہا جاتا ہے، اس کے برخلاف مذہبی کتابوں کی دوسری قسم سمرتی یعنی کتب محفوظہ کہلاتی ہے۔[23] قدیم ہندوستانی ماہرین الہیات ویدوں کو ایشور وانی یعنی دیوتاؤں کا کلام سمجھتے تھے۔[24] چنانچہ معروف ہندو رزمیہ داستان مہابھارت میں ویدوں کی تخلیق کو برہما سے منسوب کیا گیا ہے۔[25]
ہندو کتب مقدسہ سے ہندوستان کی ابتدائی تاریخ، اقوام اور رسوم و رواج کے ساتھ ساتھ عہد قدیم میں رائج علوم و فنون مثلاً موسیقی، رقص، معماری، فلکیات، علم نجوم، ریاضی، طب وغیرہ کا بھی پتا چلتا ہے۔ چنانچہ والمیکی کی راماین (500 تا 100 ق م) میں گندھرو کے سنگیت اور نغمہ سرائی، اروشی، رمبھا، مینکا، تلوتم جیسی اپسراؤں کے رقص، راون کی بیویوں کے "نرتیہ گیت" (رقص و نغمہ سرائی) اور "نرت اودتر" (آلات موسیقی کا استعمال) کا ذکر موجود ہے۔[30] رقص سے متعلق ابتدائی شواہد "نٹ سوتر" میں ملتے ہیں۔ نٹ سوتر پانچ سو ق م کے سنسکرت کے مشہور عالم اور قواعد نویس پانینی کی تحریروں میں مذکور ہیں۔[31][32] نیز عملی فنون سے متعلق سوتر متن ویدک دور کے اواخر کی کتابوں میں بھی دستیاب ہیں۔ شیلالین اور کرش واشو قدیم ڈراموں، نغموں، رقص اور عملی فنون سے متعلق سنسکرت تخلیقات کے مطالعے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔[31][33] رچمنڈ کا خیال ہے کہ نٹ سوتر 600 ق م کے آس پاس مرتب ہوئے ہیں لیکن ان کا مکمل مخطوطہ اب تک دستیاب نہیں ہو سکا۔[32][31]
^ ابKlaus Klostermaier (2007), A Survey of Hinduism: Third Edition, State University of New York Press, آئی ایس بی این978-0-7914-7082-4, pages 46–52, 76–77
^ ابWendy Doniger O'Flaherty (1988), Textual Sources for the Study of Hinduism, Manchester University Press, آئی ایس بی این0-7190-1867-6, pages 2–3
↑Patrick Olivelle (2014), The Early Upanisads, Oxford University Press, آئی ایس بی این978-0-19-535242-9, page 3; Quote: "Even though theoretically the whole of vedic corpus is accepted as revealed truth [shruti], in reality it is the Upanishads that have continued to influence the life and thought of the various religious traditions that we have come to call Hindu. Upanishads are the scriptures par excellence of Hinduism".
↑Wendy Doniger (1990), Textual Sources for the Study of Hinduism, 1st Edition, University of Chicago Press, آئی ایس بی این978-0-226-61847-0, pages 2–3; Quote: "The Upanishads supply the basis of later Hindu philosophy; they alone of the Vedic corpus are widely known and quoted by most well-educated Hindus, and their central ideas have also become a part of the spiritual arsenal of rank-and-file Hindus."
↑Purushottama Bilimoria (2011), The idea of Hindu law, Journal of Oriental Society of Australia, Vol. 43, pages 103–130
↑Roy Perrett (1998), Hindu Ethics: A Philosophical Study, University of Hawaii Press, آئی ایس بی این978-0-8248-2085-5, pages 16–18
↑مائیکل وٹزیل, "Vedas and Upaniṣads", in: Flood, Gavin, ed. (2003), The Blackwell Companion to Hinduism, Blackwell Publishing Ltd., آئی ایس بی این1-4051-3251-5, pages 68–71
^ ابWilliam Graham (1993), Beyond the Written Word: Oral Aspects of Scripture in the History of Religion, Cambridge University Press, آئی ایس بی این978-0-521-44820-8, pages 67–77
↑see e.g. MacDonell 2004، صفحہ 29–39; Sanskrit literature (2003) in Philip's Encyclopedia. Accessed 2007-08-09
↑see e.g. Radhakrishnan اور Moore 1957، صفحہ 3; Witzel, Michael, "Vedas and Upaniṣads", in: Flood 2003، صفحہ 68; MacDonell 2004، صفحہ 29–39; Sanskrit literature (2003) in Philip's Encyclopedia. Accessed 2007-08-09
↑Bloomfield, M. The Atharvaveda and the Gopatha-Brahmana, (Grundriss der Indo-Arischen Philologie und Altertumskunde II.1.b.) Strassburg 1899; Gonda, J. A history of Indian literature: I.1 Vedic literature (Samhitas and Brahmanas); I.2 The Ritual Sutras. Wiesbaden 1975, 1977
Vaman Shivram Apte (1965)۔ The Practical Sanskrit Dictionary۔ Delhi: Motilal Banarsidass Publishers۔ ISBN:81-208-0567-4{{حوالہ کتاب}}: پیرامیٹر |ref=harv درست نہیں (معاونت)
Paul Deussen؛ V.M. (tr.) Bedekar؛ G.B. Palsule (tr.) (1997)۔ Sixty Upanishads of the Veda, Volume 2۔ Motilal Banarsidass۔ ISBN:978-81-208-1467-7
Richard King؛ Gauḍapāda Ācārya (1995)، Early Advaita Vedānta and Buddhism: the Mahāyāna context of the Gauḍapādīya-kārikā، SUNY Press، ISBN:978-0-7914-2513-8
Randall Collins (2000)۔ The Sociology of Philosophies: A Global Theory of Intellectual Change۔ Harvard University Press۔ ISBN:0-674-00187-7
T. M. P Mahadevan (1956)، Sarvepalli Radhakrishnan (مدیر)، History of Philosophy Eastern and Western، George Allen & Unwin Ltd