ملکہ وکٹوریہ (پیدائش: 24 مئی1819ء– وفات: 22 جنوری1901ء) سلطنت برطانیہ کی ملکہ تھی۔ ملکہ وکٹوریہ انیسویں صدی عیسوی میں دنیا کی با اثر ترین حکمرانوں میں شمار کی جاتی ہیں۔ ملکہ وکٹوریہ کا شمار برطانیہ کی تاریخ میں انتہائی با اثر حکمرانوں میں ہوتا ہے۔ 1858ء میں اسی کے دور حکومت میں ایسٹ انڈيا کمپنی کے 120 سالہ تسلط کو ختم کر کے ہندوستان کو باضابطہ طورایک برطانوی کالونی بنادیا گيا۔ 1876ء میں ملکہ وکٹوریہ قیصرِ ہند بن گئیں۔ ملکہ وکٹوریہ نے تقریباً 64 سال حکومت کی۔ ملکہ وکٹوریہ کے دور میں سلطنت برطانیہ اپنی طاقت اور عالمی اثر و رسوخ میں اپنی انتہا پر تھی اور یہ دور بہت تبدیلیوں کا دور تھا۔ ملکہ وکٹوریہ 22 جنوری1901ء کو اِنتقال کرگئیں۔ اُن کے انتقال کے بعد ایڈورڈ ہفتم تخت نشین ہوا۔ ملکہ وکٹوریہ 22 جنوری1901ء سے 9 ستمبر2015ء تک مملکت متحدہ کی طویل ترین عہدِ حکومت والی حکمران کی حیثیت سے تاریخ کا حصہ رہیں، بعد ازاں 9 ستمبر2015ء کو یہ ریکارڈ ملکہ ایلزبتھ دوم کو حاصل ہو گیا۔[18][19][20][21]
24 جون1819ء کو کینزنگٹن محل کے ایک نجی کمرے میں ننھی وکٹوریہ کو بپتسمہ دیا گیا اور روس کے الیگزینڈر اول کے نام سے الیگزینڈرینہ اور اُس کی والدہ سے نام وکٹوریہ تجویز کیا گیا۔ اِس طرح وکٹوریہ کا نام الیگزینڈرینہ وکٹوریہ رکھا گیا حالانکہ اِس سے قبل متعدد نام جارجینا، شارلٹ، آگسٹا بھی زیرِ غور تھے مگر یہ تمام نام اُس وقت کے ولی عہد جارج چہارم، مملکت متحدہ کے احکام سے ہٹا دیے گئے۔[23]23 جنوری1820ء کو وکٹوریہ کے والد 52 سال کی عمر میں فوت ہو گئے جبکہ وکٹوریہ ابھی محض 8 ماہ کی ہی تھی۔
حلیہ
وکٹوریہ میانہ جسم کی حامل تھیں۔ رنگ گورا سپید اور جسم کسی قدر موٹاپے پر مائل تھا۔ قد 1.52 میٹر تھا۔ آنکھیں اُبھری ہوئیں، ماتھا کشادہ ناک ستواں اور دراز تھی۔ بھنوئیں کسی قدر کم تھیں۔ جوانی میں جسم میں فربھی بڑھنے لگی تھی اور غالباً 1861ء کے بعد موٹاپا زیادہ غالب آ گیا۔ چست لباس سے تمام عمر نفرت رہی اور کھلے لباس پسند کرتی تھیں۔ ہاتھوں کی انگلیاں کسی قدر فربہ اور چھوٹی تھیں جن میں ہمہ وقت سونے کی انگوٹھیاں پہنے رہتیں۔ جواہرات اور تاج عموماً شاہی تقاریب اور عوامی تقاریب میں زینت بنے رہتے تھے۔
ابتدائی حالات اور تعلیم
وکٹوریہ کے والد 23 جنوری1820ء کو انتقال کر گئے تھے جبکہ ابھی وہ 8 مہینوں کی تھی۔ وکٹوریہ کی عمر کے دو عشرے کینزنگٹن محل میں گذرے جہاں وہ اپنی والدہ کے ساتھ مقیم رہی۔کینزنگٹن محل میں 1830ء کے بعد وکٹوریہ کی حفاظت بھرپور طریقہ سے کی گئی۔ کینزنگٹن محل میں جان کانرائے کا عمل دخل بہت بڑھ چکا تھا اور وکٹوریہ کی والدہ اور جان کانرائے کی ملی بھگت سے وکٹوریہ کی محل میں حفاظت ایک منظم انداز میں کی گئی۔ وکٹوریہ سے ملاقات کرنے والا براہِ راست پہلے وکٹوریہ کی والدہ اور جان کانرائے کو اپنے حال احوال سناتا اور پھر جاکر وہ وکٹوریہ سے ملاقات کرپاتا تھا۔[24]
کینزنگٹن محل میں وکٹوریہ اپنی والدہ کے ہمراہ ایک ہی کمرے میں سوتی تھی، اِسی محل میں وہ مطالعہ کرتی اور نجی اساتذہ کی آمد بھی اِسی محل میں ہوتی جو وکٹوریہ کو تعلیم دیا کرتے۔ تعلیم کی تحصیل کے لیے پابندی وقت بہت ضروری خیال کی جاتی تھی جس پر وکٹوریہ پورا اُترتی تھی۔ اکثر وہ گڑیاؤں سے کھیلتی تھی۔[25] اساتذہ سے فرانسیسی زبان، جرمن زبان، اطالوی زبان اور لاطینی زبان سیکھی مگر وہ گھریلو طور پر انگریزی زبان بولتی تھی۔[26]
کینزنگٹن محل میں قیام کے دوران میں ہی وکٹوریہ نے مصوری بھی سیکھی۔ مصوری سے اُس کا لگاؤ آخری دم تک قائم رہا۔ اُس کے روزنامچہ ڈائری میں جا بجاء تصویری خاکے بھی ملتے ہیں جس کی وہ خود عینی شاہد ہوتی تھی۔ 1833ء میں اپنا ذاتی خاکہ بھی بنایا جو روزنامچہ وکٹوریہ میں موجود ہے۔
"میں صبح 6 بجے سو کر اُٹھی۔ والدہ نے بتلایا کہ ابھی یہاں لارڈ فرانسس کننگہم اور آرچ بشپ کینٹربری ولیم ہاؤلے موجود ہیں جو تمھارا انتظار کر رہے ہیں۔ میں بستر سے اُٹھ کر اپنے شب کے لباس میں ہی نشست گاہ والے کمرے میں چلی گئی اور اُن دونوں کو وہاں انتظار کرتے ہوئے دیکھا۔ لارڈ فرانسس کننگہم نے مجھے اِطلاع دی کہ میرے بزرگ چچا (ولیم چہارم، مملکت متحدہ) شب 2 بج کر 12 منٹ پر انتقال کر گئے اور اب آپ ملکہ ہیں۔" [28][29]
وکٹوریہ کے لیے سرکاری دستاویزات کی تیاری کا حکم دیا گیا، اِن دستاویزات میں وکٹوریہ کا نام الیگزینڈرینہ اُس کی خواہش پر حذف کر دیا گیا اور دوبارہ کبھی مستعمل نہیں ہوا۔[30]
13 جولائی1837ء کو وکٹوریہ سرکاری طور پر بکنگھم محلمنتقل ہو گئی۔ وکٹوریہ بحیثیتِ ملکہ انگلستان پہلی حکمران تھی جس نے بکنگھم محلمیں رہائش اختیار کی۔[31]20 جون1837ء کو لارڈ میلبورن نے بحیثیت وزیراعظمبرطانیہ کا حلف اٹھایا اور 30 اگست1841ء تک وہ اِس عہدہ پر قائم رہا۔ لارڈ میلبورن وکٹوریہ کے وزرائے اعظم میں پہلا تھا جو وکٹوریہ کو دو سال سے زائد تک کے عرصہ میں سیاست کے اسرار و رموز سکھاتا رہا۔ وکٹوریہ اُسے اپنے والد کے مقام پر سمجھتی تھی۔[32] حالانکہ برطانوی عوام سمجھتی تھی کہ نو عمر ملکہ لارڈ میلبورن سے شادی کر لیں گی، حتیٰ کہ عوام اکثر وکٹوریہ کو مسز میلبورن کہا کرتی تھی۔[33]
20 جون1837ء کو شاہِ انگلستانولیم چہارم، مملکت متحدہ کی وفات کے بعد وکٹوریہ رسمی طور پر ملکہ انگلستان بن چکی تھی مگر باضابطہ طور پر رسمِ تخت نشینی باقی تھی۔جمعرات28 جون1838ء کو وکٹوریہ کی باضابطہ رسمِ تخت نشینی ویسٹ منسٹر ایبے میں کی گئی۔ 28 جون1838ء کی صبح بکنگہم محل کے باہر برطانوی عوام کا جم غفیر تھا، تقریباً 4 لاکھ سے زائد افراد بکنگہم محل سے ویسٹ منسٹر ایبے تک کے جانے والے راستوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور وہ بس وکٹوریہ کی ایک جھلک دیکھنے کو بے قرار تھے۔ وکٹوریہ کی تخت نشینی کی تقریب اُنیسویں صدی عیسوی کی اہم اور بڑی تقاریب میں سے ایک شمار کی جاتی ہے۔ وکٹوریہ کی تخت نشینی پر خرچ ہونے والی رقم 79,000 پاؤنڈ اسٹرلنگ تھی جو 2015ء کے ایک محتاط تخمینہ کے مطابق 6.41 ملین پاؤنڈ اسٹرلنگ رقم تھی۔ وکٹوریہ کی تخت نشینی کے لیے شاہی بگھی وہی استعمال کی گئی جو اِس سے قبل 1831ء میں شاہِ انگلستانولیم چہارم، مملکت متحدہ کی تقریبِ تخت نشینی میں استعمال کی گئی تھی۔
ویسٹ منسٹر ایبے میں تخت نشینی کی تقریبِ خاص کی موسیقی انگریزی موسیقار جارج تھامس اسمارٹ نے مرتب کی تھی جس پر 1,500 پاؤنڈ اسٹرلنگ خرچ ہوئے۔ وکٹوریہ کے لیے نیا تاج رنڈیل اینڈ برج نامی کمپنی نے تیار کیا تھا جو شاہی تاج ریاست کہلایا، اِس تاج میں 3,093 بیش قیمت جواہرات جڑے ہوئے تھے، جبکہ تاج کے عین وسط میں ایک سرخ بڑا یاقوت جڑا گیا۔ تاج پر واقع شاہی صلیب پر ہشت پہلو تراشا ہوا سینٹ ایڈورڈ نیلم جڑا گیا۔1859ء میں اِس تاج شاہی کو بعد ازاں وکٹوریہ نے دوبارہ پہنا تاکہ مصور فرانز ژوئیر ونٹرہالٹر تخت نشینی کی تصویر بناسکے۔
مقبولیت میں کمی
وکٹوریہ اپنے عہدِ تخت نشینی کے اولین دور میں عوام کی بھرپور توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی[34] کہ اُس کی شہرت و مقبولیت کو 1839ء میں اُس وقت دھچکا لگا جب اُس کی والدہ کی کنیزوں میں سے ایک کنیز لیڈی فلورا ہیسٹنگز ماں بننے کے قابل ہو گئی۔ 33 سالہ لیڈی فلورا ہیسٹنگز محل میں شک و شبہہ کی نظر سے دیکھی جانے لگی، مشہور ہو گیا تھا کہ جان کانرائے کے اِس کنیز کے ساتھ تعلقات ہیں۔[35] افواہوں نے محل میں بازار گرم کر رکھا تھا اور نو عمر وکٹوریہ نے افواہ پر یقین کر لیا۔[36] معاملات طبی معائنہ جات پر ٹھہرے، اولاً لیڈی فلورا پیسٹنگز نے معائنہ کروانے سے انکار کر دیا، لیکن وسط ماہِ فروری1839ء میں وہ طبی معائنے پر راضی ہو گئی اور طبی معائنہ کے بعد کنواری پائی گئی۔[37]27 جون1839ء کو وکٹوریہ لیڈی فلورا ہیسٹنگز کو دیکھنے بھی گئی مگر وہ بہت لاغر اور نڈھال ہو چکی تھی۔[38]5 جولائی1839ء کو لیڈی فلورا ہیسٹنگز 33 سال کی عمر میں فوت ہوئی تو جراحی بعد از وفات کی اطلاع کے مطابق اُس کے جگر میں ایک بڑی رسولی اندرونی جانب موجود تھی جو دراصل شکم کے بڑھ جانے کا سبب بنی تھی۔[39] وکٹوریہ کو اِس معاملہ میں دکھ ہوا مگر وکٹوریہ کی مقبولیت میں کمی ہوتی گئی۔
شادی
ملکہ انگلستانایلزبتھ اول کے بعد وکٹوریہ پہلی ملکہ تھی جو تخت شاہی پر کنوارگی کی حالت میں برسر اِقتدار آئی تھی۔ 1839ء میں لارڈ میلبورن کے ساتھ خوشگوار تعلقات پر برطانوی عوام سمجھنے لگی تھی کہ عمر رسیدہ لارڈ میلبورن سے ملکہ شادی کر لیں گی مگر یہ خیال خام خیال ہی رہا۔ 10 اکتوبر1839ء میں وکٹوریہ کا عم زاد شہزادہ البرٹ کونسرٹونڈسر محللندن آیا۔ محض پانچ روز وکٹوریہ کے ساتھ گزارنے پر شہزادہ البرٹ کونسرٹ نے وکٹوریہ کو شادی کے لیے آمادہ کر لیا۔[40]23 نومبر1839ء کو خصوصی مجلس شوریٰ برطانیہ نے وکٹوریہ کی شادی کا قانونی و شاہی بل منظور کر لیا۔ 10 فروری1840ء کو شادی کی یہ تقریب سینٹ جیمز محل میں معنقد ہوئی۔ وکٹوریہ اِس شام بہت مسحور تھی اور اِس تمام کیفیت کو اُس نے 10 فروری1840ء کے روزنامچہ میں تحریر بھی کیا ہے۔[41] محض پانچ روز میں تخلیق ہونے والا یہ رشتہ آمادگی و خوشگواری آئندہ 21 سال 10 ماہ 4 دن تک مضبوطی سے قائم رہا اور 9 بچوں کی پیدائش ہوئی جو بعد ازاں یورپ کے مختلف شاہی خاندانوں میں بیاہے گئے، اِس طرح وکٹوریہ کو یورپ کی ساس بھی کہا جاتا ہے۔
جنوری 1901ء کے اوائل میں ملکہ وکٹوریہ علیل ہوئیں اور عمر کے 81 ویں سال میں وہ اپنے مشاغل میں مصروف تھیں حتیٰ کہ اپنے روزنامچہ کے آخری صفحہ وفات سے 7 روز قبل لکھا۔ جنوری1901ء کے دوسرے ہفتے میں اُن پر فالج کے اثرات نظر آنے لگے اور بینائی کمزور ہو گئی اور وکٹوریہ کو چلنے پھرنے میں دقت پیش آنے لگی۔ 22 جنوری1901ء کو وکٹوریہ کی علالت میں شدت آگئی، بستر مرگ کے قریب ایڈورڈ ہفتم اور ولہم دوم بیٹھے ہوئے تھے کہ شام 6 بج کر 30 منٹ پر وکٹوریہ انتقال کرگئیں۔ بوقت انتقال عمر 81 سال 7 ماہ 29 دن شمسی تھی۔
تدفین
ہفتہ2 فروری1901ء کو وکٹوریہ کی میت کو سینٹ جارج چیپل، ونڈسر قلعہ میں رکھ دیا گیا تاکہ عوام ان کا آخری بار دیدار کرسکیں۔ پیر4 فروری1901ء کو فراگمور، ونڈسر، بارکشائر میں آخری رسومات اداء کی گئیں جن میں یورپ کے شاہی خاندان شریک ہوئے۔ وکٹوریہ یورپ میں واحد اور آخری ملکہ تھیں جن کی آخری رسومات میں تقریباً یورپ کے تمام شاہی خاندان شریک ہوئے، بعد ازاں یہ موقع کسی ملکہ یا بادشاہ کو میسر نہیں آیا۔