محمود حسن دیوبندی کی پیدائش 1851ء میں بریلی میں ہوئی۔[5]انھوں نے دار العلوم کے قیام سے قبل میرٹھ میں محمد قاسم نانوتوی سے تعلیم حاصل کی۔[6] جوں ہی محمد قاسم نانوتوی نے دیگر علما کے ہمراہ دار العلوم دیوبند قائم کیا، محمود حسن دیوبندی اس ادارے کے پہلے طالب علم بنے۔ ان کے استاذ محمود دیوبندی تھے۔[7]انھوں نے 1873ء میں دار العلوم دیوبند سے اپنی تعلیم کی تکمیل کی۔[8]
تعلیم کی تکمیل کے بعد محمود حسن دیوبندی کو دار العلوم دیوبند کا استاد مقرر کیا گیا۔[9]1877 میں وہ اپنے استاد محمد قاسم نانوتوی، رشید احمد گنگوہی اور محمد یعقوب نانوتوی کے ہمراہ حج کے لیے روانہ ہوئے۔ دوران حج ان کی ملاقات امداد اللہ مہاجر مکی سے ہوئی جن سے ان کو اجازت بیعت و خلافت حاصل ہے۔[9] چھ ماہ کے بعد حج سے واپسی کے بعد دار العلوم میں تدریسی خدمات میں مشغول ہوئے۔[9]محمود حسن دیوبندی 1890ء میں دار العلوم دیوبند کے صدر مدرس منتخب کیے گئے۔ 1905ء میں رشید احمد گنگوہی کی وفات کے بعد وہ دار العلوم کے سرپرست بنائے گئے۔[9]
29 اکتوبر 1920ء کو محمود حسن دیوبندی نے علی گڑھ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے افتتاحی جلسے کی صدارت کی[10] اور جامعہ کا سنگ بنیاد رکھا۔ [2] علی گڑھ سے اگلے روز واپس ہونے کے بعد مختار احمد انصاری کے اصرار پر دہلی چلے گئے۔ محمود حسن دیوبندی کا 30 نومبر 1920ء کو دہلی میں انتقال ہوا۔[11]
ان کے شاگردوں نے مدرسہ نیٹورک میں شہرت حاصل کی اور جنوبی ایشیاء میں عوامی زندگی کی بہتری کے لیے خدمت انجام دی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی جیسے مذہبی اعلیٰ تعلیم، سیاست اور اداروں کی تعمیر میں حصہ لیا۔
دار العلوم دیوبند میں تدریس کے دوران محمود حسن دیوبندی سے پڑھنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔[12] ان کے بیشتر شاگرد ایسے ہیں جو اپنے آپ میں ایک انجمن اور تحریک ہیں۔[12]اشرف علی تھانوی جو حکیم الامت کے نام سے معروف ہیں، وہ تصوف میں اپنا مقام رکھتے ہیں اور ان کے مریدین کی تعداد بہت ہے۔ ان کی تصانیف آٹھ سو سے زیادہ ہے۔انور شاہ کشمیری علم حدیث میں اپنا مقام رکھتے ہیں ۔ شبیر احمد عثمانی پاکستان کے بانیوں میں سے ہیں اور عزیز الرحمن عثمانی دار العلوم دیوبند کے اولین مفتی۔
ہمالیہ تلے کے براعظم کی ڈیڑھ دو درجن جامعات میں سب سے کم دہریت اگر کسی جگہ پھیل سکی تو وہ جامعہ عثمانیہ رہی ہےـ اور اس کا سہرا بڑی حد تک صرف مولانا سید مناظر احسن گیلانی کے سر رہا ہے۔
محمود حسن دیوبندی کے شاگرد حافظ محمد احمد دار العلوم دیوبند کے 35 سال تک مہتمم رہے۔[15]حسین احمد مدنی دار العلوم کے سابق صدر مدرس اور جمعیت علمائے ہند کے سابق صدر ہونے کے علاوہ بھارت کے تیسرے بڑے شہری اعزاز پدم بھوشن کے اولین وصول کنندگان میں سے ایک ہیں۔[16]ثناء اللہ امرتسری بھی تفسیر و حدیث میں اپنا مقام رکھتے ہیں۔ انھوں نے تفسیر ثنائی کے نام سے قرآن کی مشہور تفسیر لکھی۔
ان کو محدث دار العلوم کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ انھوں نے اعظم گڑھ میں مدرسۃ الاصلاح کی سنگ بنیاد رکھی۔ انھوں نے تفسیری اور فقہی کتب کے علاوہ دار العلوم دیوبند میں سنن ابو داؤد پڑھائی۔
شیخ الادب کے نام سے معروف، ان کی کتاب نفحۃ العربدرس نظامی کے نصاب میں شامل کئی مدارس میں پڑھائی جاتی ہے۔ وہ دو مرتبہ دار العلوم دیوبند کے مفتی اعظم رہے۔
وہ دار العلوم دیوبند کے بارہ سال تک صدر مدرس تھے۔ محمد اقبال نے ان کی وفات پر تعزیتی مجلس کا انعقاد کیا اور کہا کہ گذشتہ پانچ سو سال میں علامہ کشمیری جیسا عالم پیدا نہیں ہوا ہے۔
امرتسری تحریک اہل حدیث کے نمایاں لیڈروں میں شمار ہوتے ہیں۔تفسیر ثنائی کے نام سے ان کی تفسیر قرآن بہت مشہور ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جمعیت علمائے ہند کے بانیوں میں سے ہیں۔
وہ دار العلوم دیوبند کے سابق صدر مدرس اور جمعیت علمائے ہند کے سابق صدر ہیں۔ شیخ الاسلام کے لقب سے مشہور ہیں۔تقسیم ہند کی مخالفت میں متحدہ قومیت اور اسلام نام سے معروف کتاب لکھی۔
عثمانی نے 1920ء میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام کے وقت اپنے استاذ محمود حسن دیوبندی کا افتتاحی خطبہ پڑھا اور جامعہ کے بانیوں میں سے ہیں۔ 1944ء سے 1945ء تک دار العلوم دیوبند کے صدر مہتمم تھے۔ انھوں نے جمیعت علمائے اسلام کی بنیاد رکھی۔ بانی پاکستان محمد علی جناح کی نمازِ جنازہ بھی انھوں نے ہی پڑھائی۔ عثمانی تحریک پاکستان کے سرگرم لیڈر تھے اور پاکستانی آئین ساز اسمبلی کے ارکان میں تھے۔
ریشمی رومال تحریک کے نمایاں لیڈروں میں سے تھے۔ انھوں نے 1940ء میں ولی اللہی فلسفے کی تعلیم کے لیے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بیت الحکمہ سینٹر قائم کیا تھا۔
پیشاوری ریشمی رومال تحریک کے اہم کارکن تھے۔ جب اس تحریک کا راز انگریزوں کے سامنے ظاہر ہوا تو ان کو بھی محمود حسن کے ساتھ گرفتار کر کے مالٹا جزیرے میں قید کیا گیا۔
مفتی اعظم کے لقب سے مشہور ہیں۔ وہ ہندوستان کے سابق مفتی اعظم تھے۔ جمعیت علمائے ہند کے پہلے صدر تھے۔ ان کی تعلیم الاسلام نامی کتاب ہر مدرسے میں پڑھائی جاتی ہے۔
تحریک ریشمی رومال سے وابستہ تھے۔ انھوں نے سیاست پر حکومت الہی، اساس انقلاب اور دستور امامت جیسی کتابیں لکھی۔
محمد یاسین سرہندی
احمد رضا خان کے ابتدائی اساتذہ میں سے ہیں۔ انھوں نے بریلی میں اشاعت علوم نام کا ایک مدرسہ قائم کیا تھا۔ خیر المدارس ملتان کے بانی خیر محمد جالندھری بھی ان کے اہم شاگرد ہیں۔
گیلانی جامعہ عثمانیہ کے شعبہ دینیات کے سابق صدر پروفیسر ہیں۔ انھوں نے تدوین حدیث، مقدمہ تدوین فقہ اور ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت جیسی کتابیں تصنیف کی۔
↑محمد طیب (1990)۔ The Role of Shaikh-Ul-Hind Maulana Mahmud-Ul-Hasan in the Indian Freedom Movement [تحریک آزادئ ہند میں شیخ الھند مولانا محمود حسن کا کردار] (ایم فل)۔ صفحہ: 18
^ ابپتمحمد طیب (1990)۔ The Role of Shaikh-Ul-Hind Maulana Mahmud-Ul-Hasan in the Indian Freedom Movement [تحریک آزادی ہند میں شیخ الہند مولانا محمود حسن کا کردار] (ایم فل)۔ صفحہ: 19
↑ابو محمد ثناء اللہ سعد۔ علمائے دیوبند کے آخری لمحات (2015 ایڈیشن)۔ سہارنپور: مکتبہ رشیدیہ۔ صفحہ: 24
↑ابو محمد ثناء اللہ سعد۔ علمائے دیوبند کے آخری لمحات (2015 ایڈیشن)۔ سہارنپور: مکتبہ رشیدیہ۔ صفحہ: 24–25
^ ابمحمد طیب قاسمی۔ "شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن"۔ $1 میں محمد اکبر شاہ بخاری۔ پچاس مثالی شخصیات۔ دیوبند: مکتبہ فیض القرآن۔ صفحہ: 63-73