محمود حسن دیوبندی کے شاگردوں کی فہرست

محمود حسن دیوبندی جو شیخ الہند کے نام سے معروف ہیں، دار العلوم دیوبند کے پہلے طالب علم [1] اور دار العوم کے بانی محمد قاسم نانوتوی کے تین ممتاز تلامذہ میں سے ایک تھے۔ انھوں نے 1920ء میں علی گڑھ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے افتتاحی جلسے کی صدارت کی اور اس کا سنگِ بنیاد رکھا۔[2][3] انھوں نے اردو زبان میں قرآن کا ترجمہ کیا، جو جنوبی ایشیا کے تراجم میں سے معتبر ترین تراجم میں مانا جاتا ہے۔[4]

جامعہ ملیہ اسلامیہ کا باب مولانا محمود حسن۔

محمود حسن دیوبندی کی پیدائش 1851ء میں بریلی میں ہوئی۔[5]انھوں نے دار العلوم کے قیام سے قبل میرٹھ میں محمد قاسم نانوتوی سے تعلیم حاصل کی۔[6] جوں ہی محمد قاسم نانوتوی نے دیگر علما کے ہمراہ دار العلوم دیوبند قائم کیا، محمود حسن دیوبندی اس ادارے کے پہلے طالب علم بنے۔ ان کے استاذ محمود دیوبندی تھے۔[7]انھوں نے 1873ء میں دار العلوم دیوبند سے اپنی تعلیم کی تکمیل کی۔[8]

تعلیم کی تکمیل کے بعد محمود حسن دیوبندی کو دار العلوم دیوبند کا استاد مقرر کیا گیا۔[9]1877 میں وہ اپنے استاد محمد قاسم نانوتوی، رشید احمد گنگوہی اور محمد یعقوب نانوتوی کے ہمراہ حج کے لیے روانہ ہوئے۔ دوران حج ان کی ملاقات امداد اللہ مہاجر مکی سے ہوئی جن سے ان کو اجازت بیعت و خلافت حاصل ہے۔[9] چھ ماہ کے بعد حج سے واپسی کے بعد دار العلوم میں تدریسی خدمات میں مشغول ہوئے۔[9]محمود حسن دیوبندی 1890ء میں دار العلوم دیوبند کے صدر مدرس منتخب کیے گئے۔ 1905ء میں رشید احمد گنگوہی کی وفات کے بعد وہ دار العلوم کے سرپرست بنائے گئے۔[9]

29 اکتوبر 1920ء کو محمود حسن دیوبندی نے علی گڑھ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے افتتاحی جلسے کی صدارت کی[10] اور جامعہ کا سنگ بنیاد رکھا۔ [2] علی گڑھ سے اگلے روز واپس ہونے کے بعد مختار احمد انصاری کے اصرار پر دہلی چلے گئے۔ محمود حسن دیوبندی کا 30 نومبر 1920ء کو دہلی میں انتقال ہوا۔[11]

پروفیسر ابراہیم موسی، شیخ الھند کے شاگردوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:[3]

ان کے شاگردوں نے مدرسہ نیٹورک میں شہرت حاصل کی اور جنوبی ایشیاء میں عوامی زندگی کی بہتری کے لیے خدمت انجام دی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی جیسے مذہبی اعلیٰ تعلیم، سیاست اور اداروں کی تعمیر میں حصہ لیا۔

دار العلوم دیوبند میں تدریس کے دوران محمود حسن دیوبندی سے پڑھنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔[12] ان کے بیشتر شاگرد ایسے ہیں جو اپنے آپ میں ایک انجمن اور تحریک ہیں۔[12] اشرف علی تھانوی جو حکیم الامت کے نام سے معروف ہیں، وہ تصوف میں اپنا مقام رکھتے ہیں اور ان کے مریدین کی تعداد بہت ہے۔ ان کی تصانیف آٹھ سو سے زیادہ ہے۔انور شاہ کشمیری علم حدیث میں اپنا مقام رکھتے ہیں ۔ شبیر احمد عثمانی پاکستان کے بانیوں میں سے ہیں اور عزیز الرحمن عثمانی دار العلوم دیوبند کے اولین مفتی۔

محمود حسن دیوبندی کے شاگرد محمد الیاس کاندھلوی نے مشہور اصلاحی تحریک تبلیغی جماعت شروع کی۔ عبید اللہ سندھی نے ولی اللہی فلسفے کی تعلیم کے لیے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بیت الحکمہ سینٹر قائم کیا۔ [13]محمد شفیع دیوبندی پاکستان کے قیام کے بعد وہاں کے مفتی اعظم کے عہدہ پر فائز ہوئے اور جامعہ دارالعلوم کراچی کی بنیاد رکھی۔ مناظر احسن گیلانی اپنی تصانیف کے لیے معروف ہوئے۔ گیلانی کے بارے میں انھی کے شاگرد محمد حمید اللہ کا خیال ہے کہ: [14]

ہمالیہ تلے کے براعظم کی ڈیڑھ دو درجن جامعات میں سب سے کم دہریت اگر کسی جگہ پھیل سکی تو وہ جامعہ عثمانیہ رہی ہےـ اور اس کا سہرا بڑی حد تک صرف مولانا سید مناظر احسن گیلانی کے سر رہا ہے۔

محمود حسن دیوبندی کے شاگرد حافظ محمد احمد دار العلوم دیوبند کے 35 سال تک مہتمم رہے۔[15] حسین احمد مدنی دار العلوم کے سابق صدر مدرس اور جمعیت علمائے ہند کے سابق صدر ہونے کے علاوہ بھارت کے تیسرے بڑے شہری اعزاز پدم بھوشن کے اولین وصول کنندگان میں سے ایک ہیں۔[16] ثناء اللہ امرتسری بھی تفسیر و حدیث میں اپنا مقام رکھتے ہیں۔ انھوں نے تفسیر ثنائی کے نام سے قرآن کی مشہور تفسیر لکھی۔

شاگردوں کی فہرست

نام تعارف حوالہ
احمد علی لاہوری "امام الاولیاء" لقب سے معروف مشہور مفسر قرآن تھے۔ [17]
اشرف علی تھانوی "حکیم الامت" کے لقب سے معروف صوفی مرشد اور عالم تھے۔ انھوں نے بیان القرآن نام سے قرآن کی ایک تفسیر لکھی۔ بہشتی زیور بھی ان کی معروف کتاب ہے۔ [18][19]
اصغر حسین دیوبندی ان کو محدث دار العلوم کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ انھوں نے اعظم گڑھ میں مدرسۃ الاصلاح کی سنگ بنیاد رکھی۔ انھوں نے تفسیری اور فقہی کتب کے علاوہ دار العلوم دیوبند میں سنن ابو داؤد پڑھائی۔ [20]
اعزاز علی امروہی شیخ الادب کے نام سے معروف، ان کی کتاب نفحۃ العرب درس نظامی کے نصاب میں شامل کئی مدارس میں پڑھائی جاتی ہے۔ وہ دو مرتبہ دار العلوم دیوبند کے مفتی اعظم رہے۔ [21]
انور شاہ کشمیری وہ دار العلوم دیوبند کے بارہ سال تک صدر مدرس تھے۔ محمد اقبال نے ان کی وفات پر تعزیتی مجلس کا انعقاد کیا اور کہا کہ گذشتہ پانچ سو سال میں علامہ کشمیری جیسا عالم پیدا نہیں ہوا ہے۔ [22][23]
ثناء اللہ امرتسری امرتسری تحریک اہل حدیث کے نمایاں لیڈروں میں شمار ہوتے ہیں۔تفسیر ثنائی کے نام سے ان کی تفسیر قرآن بہت مشہور ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جمعیت علمائے ہند کے بانیوں میں سے ہیں۔ [24][25]
حافظ محمد احمد وہ دار العلوم دیوبند کے پانچویں مہتمم اور ریاست حیدرآباد کے مفتی اعظم تھے۔ [26]
حسین احمد مدنی وہ دار العلوم دیوبند کے سابق صدر مدرس اور جمعیت علمائے ہند کے سابق صدر ہیں۔ شیخ الاسلام کے لقب سے مشہور ہیں۔تقسیم ہند کی مخالفت میں متحدہ قومیت اور اسلام نام سے معروف کتاب لکھی۔ [27]
سید فخر الدین احمد جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی، مرادآباد کے سابق صدر مدرس، جمعیت علمائے ہند کے سابق صدر اور دار العلوم دیوبند کے سابق شیخ الحدیث۔
شبیر احمد عثمانی عثمانی نے 1920ء میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام کے وقت اپنے استاذ محمود حسن دیوبندی کا افتتاحی خطبہ پڑھا اور جامعہ کے بانیوں میں سے ہیں۔ 1944ء سے 1945ء تک دار العلوم دیوبند کے صدر مہتمم تھے۔ انھوں نے جمیعت علمائے اسلام کی بنیاد رکھی۔ بانی پاکستان محمد علی جناح کی نمازِ جنازہ بھی انھوں نے ہی پڑھائی۔ عثمانی تحریک پاکستان کے سرگرم لیڈر تھے اور پاکستانی آئین ساز اسمبلی کے ارکان میں تھے۔ [28]
عبد الرزاق پیشاوری سید محبوب رضوی نے لکھا ہے کہ پیشاوری افغانستان میں چیف جسٹس تھے اور جامعہ کابل کے صدر تھے۔
عبید اللہ سندھی ریشمی رومال تحریک کے نمایاں لیڈروں میں سے تھے۔ انھوں نے 1940ء میں ولی اللہی فلسفے کی تعلیم کے لیے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بیت الحکمہ سینٹر قائم کیا تھا۔ [29][13]
عزیر گل پیشاوری پیشاوری ریشمی رومال تحریک کے اہم کارکن تھے۔ جب اس تحریک کا راز انگریزوں کے سامنے ظاہر ہوا تو ان کو بھی محمود حسن کے ساتھ گرفتار کر کے مالٹا جزیرے میں قید کیا گیا۔ [30]
عزیز الرحمن عثمانی وہ دار العلوم دیوبند کے پہلے مفتی اعظم تھے۔ ان کے فتاوی فتاوی دار العلوم دیوبند کے نام سے کئی جلد میں چھپ چکے ہیں۔
کریم بخش سنبھلی ان کے مایہ ناز تلامذہ میں سید فخر الدین احمد، حبیب الرحمٰن الاعظمی اور منظور نعمانی ہیں۔
کفایت اللہ دہلوی مفتی اعظم کے لقب سے مشہور ہیں۔ وہ ہندوستان کے سابق مفتی اعظم تھے۔ جمعیت علمائے ہند کے پہلے صدر تھے۔ ان کی تعلیم الاسلام نامی کتاب ہر مدرسے میں پڑھائی جاتی ہے۔ [31]
محمد الیاس کاندھلوی کاندھلوی اسلامی اصلاحی تحریک تبلیغی جماعت کے بانی ہیں۔ [32]
محمد سہول بھاگلپوری بھاگلپوری دار العلوم دیوبند کے پانچویں مفتی اعظم تھے۔
محمد شفیع دیوبندی پاکستان کے سابق مفتی اعظم اور جامعہ دارالعلوم کراچی کے بانی ہیں۔ معارف القرآن نام سے قرآن کی ایک مشہور تفسیر لکھی۔ [18][33]
محمد طیب قاسمی محمد طیب قاسمی دار العلوم دیوبند کے سابق مہتمم اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے بانیوں میں سے ہیں۔ [34][35]
محمد میاں منصور انصاری تحریک ریشمی رومال سے وابستہ تھے۔ انھوں نے سیاست پر حکومت الہی، اساس انقلاب اور دستور امامت جیسی کتابیں لکھی۔
محمد یاسین سرہندی احمد رضا خان کے ابتدائی اساتذہ میں سے ہیں۔ انھوں نے بریلی میں اشاعت علوم نام کا ایک مدرسہ قائم کیا تھا۔ خیر المدارس ملتان کے بانی خیر محمد جالندھری بھی ان کے اہم شاگرد ہیں۔ [36]
مناظر احسن گیلانی گیلانی جامعہ عثمانیہ کے شعبہ دینیات کے سابق صدر پروفیسر ہیں۔ انھوں نے تدوین حدیث، مقدمہ تدوین فقہ اور ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت جیسی کتابیں تصنیف کی۔ [3][37][38]

مولاناعبدالحلیم شاشی قاسمی ہزاروی کشمیری جنھوں نے 1308ھ میں شیخ الہند مولانامحمودالحسن رح سے شرف تلمذحاصل کیا

کتابیات

  • سید محبوب رضوی۔ تاریخ دار العلوم دیوبند۔ جلد دوم (1981 ایڈیشن)۔ دیوبند: دار العلوم دیوبند 
  • محمد طیب (1990)۔ The Role of Shaikh-Ul-Hind Maulana Mahmud-Ul-Hasan in the Indian Freedom Movement [تحریک آزادئ ہند میں شیخ الھند مولانا محمود حسن کا کردار] (ایم فل)۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی 

حوالہ جات

  1. "The Islamic Quarterly"۔ 2010 
  2. ^ ا ب ظفر احمد نظامی۔ "شیخ الھند مولانا محمود حسن"۔ معماران جامعہ (2011 ایڈیشن)۔ نئی دہلی: مکتبہ جامعہ۔ صفحہ: 17–44۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 مئی 2020 
  3. ^ ا ب پ ابراہیم موسی (6 اپریل 2015)۔ What is a Madrasa? [مدرسہ کیا ہے؟]۔ ISBN 978-1-4696-2014-5۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 مئی 2020 
  4. Ways of Knowing Muslim Cultures and Societies: Studies in Honour of Gudrun Krämer۔ 22 نومبر 2018۔ ISBN 9789004386891 
  5. منظر امام (25 اکتوبر 2020)۔ "Jamia Millia Islamia and Shaikhul Hind Maulana Mahmud Hasan" [جامعہ ملیہ اسلامیہ اور شیخ الھند مولانا محمود حسن]۔ امید (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 دسمبر 2020  [مردہ ربط]
  6. نظام الدین اسیر ادروی۔ تذکرہ مشاہیر ہند: کاروان رفتہ (دوسرا، اپریل 2016 ایڈیشن)۔ دیوبند: دار المؤلفین۔ صفحہ: 246 
  7. بربارا میٹکالف۔ "The Madrasa at Deoband: A Model for Religious Education in Modern India"۔ ماڈرن ایشین اسٹڈیز۔ کیمبرج: کیمبرج یونیورسٹی پریس۔ 12 (1): 112۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 دسمبر 2020 
  8. محمد طیب (1990)۔ The Role of Shaikh-Ul-Hind Maulana Mahmud-Ul-Hasan in the Indian Freedom Movement [تحریک آزادئ ہند میں شیخ الھند مولانا محمود حسن کا کردار] (ایم فل)۔ صفحہ: 18 
  9. ^ ا ب پ ت محمد طیب (1990)۔ The Role of Shaikh-Ul-Hind Maulana Mahmud-Ul-Hasan in the Indian Freedom Movement [تحریک آزادی ہند میں شیخ الہند مولانا محمود حسن کا کردار] (ایم فل)۔ صفحہ: 19 
  10. ابو محمد ثناء اللہ سعد۔ علمائے دیوبند کے آخری لمحات (2015 ایڈیشن)۔ سہارنپور: مکتبہ رشیدیہ۔ صفحہ: 24 
  11. ابو محمد ثناء اللہ سعد۔ علمائے دیوبند کے آخری لمحات (2015 ایڈیشن)۔ سہارنپور: مکتبہ رشیدیہ۔ صفحہ: 24–25 
  12. ^ ا ب محمد طیب قاسمی۔ "شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن"۔ $1 میں محمد اکبر شاہ بخاری۔ پچاس مثالی شخصیات۔ دیوبند: مکتبہ فیض القرآن۔ صفحہ: 63-73 
  13. ^ ا ب جاوید اختر۔ Jamia Millia Islamias contribution to Islamic studies since 1920 [1920 سے اسلامک اسٹڈیز میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کا حصہ]۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اپریل 2020 
  14. مناظر احسن گیلانی۔ "تمہید از ڈاکٹر حمید اللہ"۔ حضرت امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی۔ جوگیشوری: مکتبہ الحق۔ صفحہ: 19–20 
  15. سید محبوب رضوی، تاریخ دار العلوم دیوبند، دوم، ترجمہ بقلم مرتضی حسین ف قریشی، صفحہ: 37-38, 170-174 
  16. سید نصیر احمد۔ "Maulana Hussain Ahmad Madani who opposed the separatist ideology of the All India Muslim League." [مولانا حسین احمد مدنی جنھوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی تقسیم پالیسی کی مخالفت کی]۔ heritagetimes.in (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 دسمبر 2020 
  17. محمد میاں دیوبندی۔ علمائے حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے۔ 1۔ دیوبند: فیصل پبلیکیشنز۔ صفحہ: 77–78۔ ISBN 81-86971-94-7 
  18. ^ ا ب محمد تقی عثمانی۔ The Great Scholars of the Deoband Islamic Seminary [اکابر دیوبند کیا تھے؟]۔ ترجمہ بقلم عبد الرحیم قداوی۔ لندن: تراتھ پبلشنگ۔ ISBN 978-1-906949-26-6 
  19. محمد شفیع دیوبندی۔ چند عظیم شخصیات۔ کراچی: ادارۃ المعارف 
  20. سید محبوب رضوی، تاریخ دار العلوم دیوبند، دوم، ترجمہ بقلم مرتض حسین ف قریشی، صفحہ: 61-64 
  21. محمد حنیف گنگوہی۔ "صاحب نفحتہ العرب"۔ حالات مصنفین درس نظامی (PDF) (بزبان Urdu) (مارچ 2000 ایڈیشن)۔ کراچی: دار الاشاعت۔ صفحہ: 246–251۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اپریل 2020 
  22. سید محبوب رضوی، تاریخ دار العلوم دیوبند، دوم، ترجمہ بقلم مرتض حسین ف قریشی، صفحہ: 49–51 
  23. "Bringing the Legend to Light"۔ گریٹر کشمیر۔ 16 دسمبر 2017۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اپریل 2020 
  24. "Biography of Shaykh Al-Islam Thanaullah Amritsari" [شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری کی سوانح]۔ umm-ul-qura.org۔ 18 نومبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اپریل 2020 
  25. شمس الرحمن محسنی۔ قومی تعلیمی تحریک (2012 ایڈیشن)۔ دہلی: مکتبہ جامعہ۔ صفحہ: 19۔ ISBN 978-81-7587-788-7 
  26. سید محبوب رضوی، تاریخ دار العلوم دیوبند، دوم، ترجمہ بقلم مرتض حسین ف قریشی، صفحہ: 170 
  27. سید محبوب رضوی، تاریخ دار العلوم دیوبند، دوم، ترجمہ بقلم مرتض حسین ف قریشی، صفحہ: 56 
  28. "Constituent Assembly adopts Objectives Resolution (1949)"۔ دی فرائیڈے ٹائمز۔ 26 اگست 2011۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 جنوری 2017  [مردہ ربط]
  29. ڈاکٹر ض ح فاروقی، ضیاء الحسن فاروقی (1999)۔ Dr. Zakir Hussain, Quest for Truth [ڈاکٹر ذاکر حسین، طلب حق]۔ ISBN 9788176480567 
  30. محمد میاں دیوبندی۔ "مولانا عزیر گل"۔ اسیران مالٹا۔ دیوبند: نعیمیہ بک ڈپو۔ صفحہ: 367–376 
  31. مفتی اعظم ہند، مولانا کفایت اللہ شاہجہانپوری ثم دہلوی (2005 ایڈیشن)۔ خدا بخش اورئینٹل پبلک لائبریری 
  32. طالب جلیل (11 جولائی 2015)۔ Notes On Entering Deen Completely: Islam as its followers know it۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 مئی 2020 
  33. محمد تقی عثمانی۔ "حضرت شیخ الھند مولانا محمود حسن"۔ $1 میں محمد ناظم اشرف۔ تذکرے۔ دیوبند: فیصل انٹرنیشنل۔ صفحہ: 195۔ ISBN 978-7-86-000918-3 
  34. مفتی تقی عثمانی۔ "قاری محمد طیب"۔ نقوش رفتگاں (اپریل 2007 ایڈیشن)۔ کراچی: مکتبہ المعارف۔ صفحہ: 193-194 
  35. نور عالم خلیل امینی۔ پس مرگ زندہ (PDF)۔ Archive.org۔ دیوبند: ادارہ علم و ادب۔ صفحہ: 114 
  36. فخر بلال (جنوری-جون 2018)۔ "From Jalandhar (India) to Multan (Pakistan): Establishment of Jamia Khair ul Madaris, 1931–1951" [جالندھر (بھارت) سے ملتان (پاکستان) تک: خیر المدارس کا قیام] (PDF)۔ Journal of the Research Society of Pakistan۔ ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان۔ 55 (1)۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اپریل 2020 
  37. "The Distinguished Researcher and Litterateur: Mawlānā Manāzir Ahsan Gīlāni" [مایہ ناز محقق اور قلم کار: مولانا مناظر احسن گیلانی]۔ IlmGate.org۔ 27 فروری 2015۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اپریل 2020 
  38. "Muslim Personalities: Maulana Manazir Ahsan Gilani" [مسلم شخصیات: مولانا مناظر احسن گیلانی]۔ Biharanjuman.org۔ 2006۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 مئی 2020 

Strategi Solo vs Squad di Free Fire: Cara Menang Mudah!