مملکت متحدہ کی ایک سیاسی جماعت۔ لبرل پارٹی سے بننے والی یہ پارٹی، ٹوری پارٹی کی طرح قدیم ترین پارٹی ہے
تاریخ
لبرل ڈیموکریٹس کی مادر جماعت ،لبرل پارٹی کی جڑیں سن سولہ سو تیس میں چارلس دوم کے دور میں وہگ پارٹی سے ملتی ہیں۔ وہگ پارٹی اشرافیہ کی جماعت تھی جو بادشاہ کے اختیارات میں تخفیف اور پارلیمنٹ کے اختیارات میں اضافہ کی زبردست حامی تھی اور اسی مسئلہ پر اس کی چارلس دوم کے ساتھ معرکہ آرائی ہوئی تھی۔
گو اس معرکہ آرائی کے پس پشت مقصد اشرافیہ طبقہ کے مفادات کا تحفظ تھا اور خود زیادہ سے زیادہ اختیارات حاصل کرنا تھا لیکن بلاشبہ عملی طور پر اس معرکہ آرائی سے جمہوریت کے فروغ کو تقویت پہنچی۔
وہگ پارٹی پہلی بار سن اٹھارہ سو تیس میں بر سرِاقتدار آئی جس نے اٹھارہ سو بتیس میں پہلی اصلاحات کا قانون منظور کیا۔ یہ اقدام وہگ پارٹی کا نقطۂ عروج تھا لیکن یہی اس کے خاتمے کا بھی نقیب ثابت ہوا کیونکہ اس قانون کے تحت متوسط طبقہ کو حق رائے دہی حاصل ہوا اور دار العوام میں اس طبقہ کا اثر بڑھا۔
لبرل پارٹی
اسی زمانہ میں ریڈیکل لارڈ جان رسل نے وہگ پارٹی کے روشن خیال اراکین پر مشتمل لبرل پارٹی کے نام سے الگ جماعت قائم کی۔ لبرل پارٹی بلاشبہ برطانیہ میں روشن خیالی کی پہلی علم بردار تھی۔ یہ جماعت سماجی اصلاحات اور شخصی آزادی کی زبردست حامی تھی اور بادشاہ اور چرچ آف انگلینڈ کے اختیارات کی تخفیف کی تحریک میں پیش پیش تھی۔
اسی روشن خیالی کی وجہ سے لبرل پارٹی کو اٹھارہ سو اڑسٹھ کے عام انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل ہوئی اور گلیڈ اسٹون کی قیادت میں پہلی لبرل حکومت بنی۔گلیڈ اسٹون نے چار بار انتخابات جیتے اور یوں لبرل پارٹی نے تقریباً تیس سال تک حکمرانی کی۔
زوال
پہلی عالمگیر جنگ کے بعد لبرل پارٹی میں پھوٹ پڑ گئی اور پارٹی کا ایک بڑا حصہ نئی جماعت لیبر پارٹی سے جا ملا۔ جس کے بعد لبرل پارٹی کی مقبولیت روز بروز کم ہوتی گئی یہاں تک کہ سن پچاس کے عشرہ میں لبرل پارٹی کے ووٹ ملک کے کل ووٹوں میں صرف ڈھائی فیصد رہ گئے۔ اس زمانہ میں لبرل پارٹی کو ٹوری پارٹی میں ضم کیے جانے کی بھی بات ہوئی۔ سن ساٹھ کے عشرہ میں لبرل پارٹی کا عالم یہ تھا کہ اس کا یہ کہہ کر مذاق اڑایا جاتا تھا کہ پوری پارٹی صرف ایک ٹیکسی میں بیٹھ کر پارلیمنٹ جا سکتی ہے
عروج
لیکن جوگریمنڈ کی قیادت میں پارٹی کا بڑی تیزی سے احیاء ہوا اور اس پارٹی نے مقامی سطح پر مسائل پر اپنی توجہ مرکوز کی اور ان کے حل کے لیے نئی راہیں تجویز کیں جس کی وجہ سے اسے لوکل کونسلوں کے انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل ہوئی۔
گو لبرل پارٹی کے دار العوام میں اراکین کی تعداد بہت کم تھی لیکن انیس سو چوہتر کے انتخابات میں وزیرِاعظم ہیتھ نے لبرل پارٹی کو ٹوری پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت میں شمولیت کی پیش کش کی لیکن اس وقت لبرل سربراہ جیرمی تھارپ نے اسے ٹھکرا دیا۔ مقصد اس اقدام کا یہ ثابت کرنا تھا کہ لبرل پارٹی روشن خیال پارٹی ہے جس کا ٹوری پارٹی جیسی قدامت پسند پارٹی کے ساتھ محض اقتدار کے لیے میل نہیں ہو سکتا۔ نتیجہ یہ کہ لیبر پارٹی حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔
جیرمی تھارپ کی قیادت میں لبرل پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور سن اناسی کے عام انتخابات میں اس کے ووٹ بیس لاکھ سے ساٹھ لاکھ تک پہنچ گئے
لیکن جیرمی تھورپ کے خلاف ایک مرد ماڈل نارمن اسکاٹ کوقتل کرنے کی سازش کے الزام میں مقدمہ چلا۔ گو اس مقدمہ میں جیرمی تھورپ بری ہو گئے لیکن ان کا سیاسی کیریر ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔ ان کی جگہ ڈیوڈ اسٹیل لبرل پارٹی کے سربراہ بنے جنھوں نے لیبر وزیر اعظم کیلہن کی اقلیتی حکومت کو سہارا دیا۔
نئی پارٹی
سن اناسی میں لیبر پارٹی کی شکست نے برطانیہ کا سیاسی نقشہ بدل دیا۔ لیبر پارٹی کے چار سابق وزیروں نے جنہیں چار کا ٹولہ کہا جاتا تھا لیبر پارٹی سے نکل کر اپنی نئی سیاسی جماعت قائم کی۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے نام سے
انیس سو تیراسی میں لبرل پارٹی کا سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ انتخابی اتحاد ہوا اور اس اتحاد نے انتخابات میں پچیس فی صد ووٹ حاصل کیے لیکن بہت کم نشستیں ملیں۔
آخر کار انیس سو اٹھاسی میں ان دونوں جماعتوں کا باقاعدانضمام ہوا اور لبرل ڈیموکریٹس کے نام سے نئی پارٹی ابھری جس کی قیادت پیڈی ایش ڈاؤن نے سنبھالی۔ شروع شروع میں تو اس کی کار کردگی مایوس کن تھی لیکن انیس سو ستانوے میں لبرل ڈیموکریٹس ملک کے بلدیاتی انتخابات میں دوسری بڑی جماعت کی حیثیت سے ابھری اور ٹوری پارٹی کو تیسری پوزیشن میں دھکیل دیا۔
اسی سال عام انتخابات میں لبرل ڈیموکیٹس نے خاص طور پر ان ٹوری نشستوں پر زیادہ زور دیا جن پر جیت کا امکان تھا اور یہ حکمت عملی کار گر ثابت ہوئی۔ نتیجہ یہ کہ لبرل ڈیموکرٹس کو چھیالیس نشستیں حاصل ہوئیں۔
پیڈی ایش ڈاؤن کی قیادت سے دست برداری کے بعد چارلس کینیڈی نئے سربراہ منتخب ہوئے جنھوں نے مقامی سیاست پر اور زیادہ زور دیا جس کے نتیجہ میں یہ جماعت تیزی سے مقبولیت اور امکانات کے نئے دروازے کھول رہی ہے۔
حال
اپنی ملک کی تین بڑی جماعتوں میں سے لبرل ڈیموکریٹس واحد جماعت تھی جس نے عراق کی جنگ کی شدید مخالفت کی تھی اور بدستور دار العوام میں اور باہر، ٹونی بلئیر کی جنگ کی پالیسی کو للکار رہی ہے۔ اسے توقع ہے کہ قومی سیاست میں ایک نئے روشن خیال انداز فکر، مقامی سیاست میں بڑھتی ہوئی مقبولیت اور عراق کی جنگ کی مخالفت کی بنیاد پر وہ پانچ مئی کے انتخابات میں اگر اقتدار نہیں تو کم از کم دوسری بڑی سیاسی جماعت کی حیثیت تو ضرور حاصل کر لے گی۔