صنفی مطالعات (انگریزی: Gender studies) ایک بین شعبہ جاتی مطالعہ ہے جس کا مقصد صنفی شناخت اور صنفی نمائندگی کا تجزیہ ہے۔ اس میں مطالعہ نسواں (جس میں خواتین، نسوانیت، صنف اور سیاست کے پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے)، مردانہ مطالعہ اور ہم جنس پسندی کا مطالعہ شامل ہے۔[1] اس کا مرکزیت پر چھانا، خصوصًا مغربی جامعات میں 1990ء کے بعد عدوم تعمیم (deconstructionism) کی کامیابی کے طور پر دیکھا گیا ہے۔[2] کبھی کبھار صنفی مطالعات جنسیت کے مطالعے کا حصہ ہوتے ہیں۔ یہ ان شعبہ جات کا، جن کا کہ تعلق صنف اور جنسیت سے ہے، جیسے کہ ادب، لسانیات، انسانی جغرافیہ، تاریخ، سیاسیات، آثار قدیمہ، معاشیات، نفسیات، انسانیات، فلم، موسیقیات، ذرائع ابلاغ کے مطالعات، انسانی ترقی[3]، قانون، عوامی صحت اور طب سے مربوط ہے۔[4] اس میں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ کس طرح نسل، مقام وقوع یا مقام پیدائش، سماجی طبقہ، قومیت اور معذوری کس طرح صنف اور جنسیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔[5][6]
بڑھتی اہمیت
صنفی مطالعات کی اہمیت جدید دور میں کافی بڑھ گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روایتی کردار بدل رہے ہیں۔ جہاں ماضی میں زیادہ تر خواتین گھر کی چار دیواری میں محدود رہی ہیں، وہ جدید دور میں ہر طرح کے پیشے اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس میں کچھ آسان تدریسی پیشے کے علاوہ مشکل سمجھے جانے پیشے جیسے کہ سیاست اور ہوا بازی میں بھی عورتیں داخل ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ جگہوں پر ادارہ جات اور کاروبار چلانے کا کام عورتیں ہی کر رہی ہیں۔ اس کی وجہ سے اندرون خانہ کی زندگی کی کیفیت بھی بدل رہی ہے۔ گھریلو کام کے علاوہ گھر کے فیصلوں میں بھی عورتیں زیادہ دخیل اور فیصلہ ساز بن رہی ہیں۔ اس کی وجہ سے کچھ حلقوں سے یہ مطالبے بھی زور پکڑنے لگے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں صنفی مطالعات کو شامل کیا جانا چاہیے تاکہ بچے کم عمری سے ہی ہر صنف کا احترام کرنا سیکھیں اور ان کے تئیں حساس ہو۔[7]
مزید دیکھیے
حوالہ جات