مرعشی نجفی نے ایک کتب خانے کی بنیاد رکھی جو آج کتب کی تعداد اور قدیم اسلامی کتب کے قلمی نسخوں کے لحاظ سے، ایران کی پہلی بڑی اور دنیائے اسلام کا تیسری بڑی لائبریری سمجھی جاتی ہے۔ وہ کبھی سفر حج کے لیے مستطیع نہیں ہوئے۔ انھوں نے مرعشیہ، شہابیہ، مہدیہ اور مؤمنیہ نامی مدارس کی بنیاد رکھی۔
ان کی اہم ترین تالیفات میں تعلیقات احقاق الحق، مشجرات آل الرسول، طبقات النسابین اور حاشیہ بر عمدۃ الطالب شامل ہیں۔ انھوں نے اپنی کتابیں لکھنے کے لیے بعض ممالک کے دورے کیے اور مختلف ادیان و مذاہب کے علما کے ساتھ مباحثے کیے۔ آیت اللہ مرعشی کو ان کی وصیت کے مطابق قم کے خیابان ارم میں ان کے کتاب خانے میں سپرد خاک کیا گیا۔
آیت اللہ مرعشی نے اپنی حیات میں 150 سے زائد کتب اور رسائل کی تصنیف و تالیف کا اہتمام کیا۔[2] ان کی تالیفات یا تو زیور طبع سے آراستہ ہو کر عام لوگوں کے لیے دستیاب ہیں، بعض دیگر قلمی صورت میں ہیں، بعض تلف ہوئی ہیں اور بعض تالیفات جو منتشر اوراق کی صورت میں ہیں اس وقت تدوین کے مرحلے سے گذر رہی ہیں۔ ان کی بعض تالیفات حسب ذیل ہیں:
قرآنی علوم:
التجوید
الرد علی مدعی التحریف
حاشیۂ علی انوار التنزیل بیضاوی
سند القراء والحفاظ
مقدمۂ تفسیر الدر المنثور سیوطی
ادبیات:
قطف الخزامی من روضۃ الجامی (جامی کی شرح کافیہ پر حاشیہ)
المعول فی امر المطول (شرح تلخیص تفتازانی پر حاشیہ)
ایران کے مذہبی شہر قم کے ریلوے اسٹیشن کی مسجد کی تعمیر نو ـ جس کو دوسری عالمی جنگ کے دوران ـ جرمن مخالف اتحادی ممالک کی افواج نے گرجاگھر میں تبدیل کیا تھا؛
مختلف ممالک میں متعدد مساجد اور حسینیات کی تاسیس و تعمیر؛
سیلاب زدگان، مسلط کردہ جنگ کے پناہ گزینوں اور مقروضین کی امداد وغیرہ۔۔۔
وفات
آیت اللہ مرعشی نجفی مورخہ 7 صفر سنہ 1411 ہجری قمری / 29 اگست سنہ 1990کو 96 سال کی عمر میں وفات پاگئے اور اپنی وصیت کے مطابق، قم کے خیابان ارم میں واقع اپنے کتب خانے میں سپرد خاک کیے گئے۔[4]
نیز ان کی وصیت کے مطابق وہ مصلٰی جس پر انھوں نے ستر سال عبادت کی تھی اور وہ لباس جو وہ عزائے امام حسین(ع) کے لیے زیب تن کیا کرتے تھے نیز کچھ مٹی جو انھوں نے ائمۂ معصومین علیہم السلام اور امام زادگان کے مراقد سے جمع کررکھی تھی، کو ان کے ساتھ قبر میں رکھا گیا۔