علمی جماعت بندی (scientific classification) جس کو حیاتیاتی جماعت بندی بھی کہا جاتا ہے ایک ایسا شعبہ علم ہے جس میں حیاتیات دان، جانداروں (ناپید و پید) کی درجہ بندی اور زمرہ جاتی ترتیب طے کرتے ہیں۔اس کے مطابق جانداروں کو نام دینے کا سائنسی طریقہ ہوتا ہے، جس کے مطابق حیاتیات میں نام دیا جاتا ہے اس کو سائنسی نام کہتے ہیں۔اکثر یہ نام لاطینی، یونانی یا رومن زبانوں میں دئے گئے ہیں۔ جنھوں نے انگریزی یا اردو میں حیوانیات و نباتیات کے مضامین اور بطور خاص جانداروں کی جماعت بندیوں پر نظر ڈالی ہو انھیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگا کہ جماعت بندی کا طریقہ کار انگریزی میں بھی اتنا مشکل (یونانی کے الفاظ کے مرکبات کے ساتھ) اور ارتقائی پس منظر رکھتا ہے کہ عام شخص کے ليے تو وہ بالکل ہی ایک سمجھ نہ آنے والی عبارت بن کر رہ جاتا ہے۔ اور پھر مزہ تو اس وقت آتا ہے کہ جب ان ٹیڑھے ٹیڑھے انگریزی یونانی کے الفاظ کو اردو میں لکھا جاتا ہے، پھر ہوتا یوں ہے کہ ایک تو وہ لفظ انگریزی میں ہی اتنا مشکل تھا کہ اس کا مطلب تو کیا درست ادائیگی بھی ٹیڑھی کھیر سے کم نہ تھی اور اردونائیزیشن کرنے پر تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا کسی چیونٹی کو سیاہی میں ڈبو کر کاغذ پر چھوڑدیا گیا ہو اور پھر کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس لفظ کو سر کی طرف سے پڑھا جائے یا دم کی۔
جانداروں (حیوانات و نباتات) کو جن درجات میں تقسیم کیا جاتا ہے وہ یوں ہیں کہ: میدان، مملکت، شعبہ، جماعت، ذیلی جماعت، طبقہ، خاندان، جنس اور پھر نوع۔ یہ تو کل نو الفاظ ہوئے اور ان کو تو سمجھا جا سکتا ہے مگر ان میں آنے والے لاتعداد حیوانات اور پودے! کتنوں کی درجہ بندی کو سمجھ سکتا ہے ایک انسانی ذہن؟ کیا انھیں انگریزی ہی میں لکھ دیا جائے؟ کیا اس طرح انگریزی میں لکھنے سے انکا مفہوم سمجھ میں آجائے گا؟ ان تمام سوالات کا حل اور اس شجرحیات کے پیچ در پیچ بل کھاتے اژدہا پر قابو پانا عام اور رائج طریقہ سے ناممکن ہی نہیں، فضول اور نقصان دہ بھی ہے۔ اس کے ليے کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا پڑے گا کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
بس اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اردو ویکیپیڈیا پر انگریزی کے ٹیڑھے ٹیڑھے ناموں کو جوں کا توں لکھ دینے کی بجائے باقاعدہ اصول اور ضوابط کی بنیادوں پر اردو کے نام بناکر استعمال کیے گئے ہیں۔ گو یہ نام شائد پیچیدہ تو محسوس ہوں اس کے باوجود یہ اتنے پیچیدہ نہیں ہوں گے جتنے انگریزی کے نام اردو ابجد میں لکھنے سے ہوجاتے ہیں۔ اور پھر یہ کہ چونکہ ان ناموں کو اپنانے کے اصول اور ضوابط بھی اس صفحہ پر درج کیے گئے ہیں تاکہ کسی دقت کی صورت میں ان کی جانب رجوع کیا جاسکے۔
درجات اور انکا اسم حفظی
اوپر بیان کردہ عبارت میں جو 9 عدد نام درجات کے مندرج ہیں وہ ایک مکمل ترین فہرست ہے۔ عموما کسی بھی جاندار (جانور یا پودے) کے ذکر کے ساتھ جن درجات کو لازمی ذکر کیا جاتا ہے وہ پالائی سے زیریں درجہ کی جانب یہ ہیں
اور ان درجات کے ناموں کو نسبتاً آسانی سے حافطہ میں محفوظ کرنے کے ليے ہر درجہ کے نام کا پہلا لفظ لے کر ایک مختصر اسم حفظی (mnemonic) بھی اختیار کیا جا سکتا ہے جو مشجط خجـَن ہے۔ اسم حفظی تو اس کے علاوہ کوئی اور بھی بنایا جا سکتا ہے۔
نام دینا اور پہچاننا
سب سے پہلے تو ہر جاندار کی ابتدا کا نام دیا جائگا جو قابل فہم اور آسان ہو (اگر پہلے سے رائج لفظ دستیاب ہوا تواسی کا انتخاب کیا جائیگا)
پھر اس نام کی درجہ بہ درجہ اترنے کی نوعیت کے لحاظ سے اس میں لاحقوں کا اضافہ کر دیا جائے گا (جس طرح انگریزی میں کیا جاتا ہے اور نیچے جدول میں درج کیا گیا ہے)
اس طرح لاحقوں کے اضافوں سے الفاظ بعض اوقات بالکل نئی (شائد کسی حد تک عجیب) صورت بھی اختیار کرسکتے ہیں، لیکن وہ اتنے عجیب ہرگز نہیں ہو سکتے کہ جتنے انگریزی کے اختیار کرنے پر ہوجائیں گے، لہذا اس نوبت کے آنے پر کوئی متبادل تلاش کیا جا سکتا ہے یا پھر لاحقوں میں ترمیم کا سوچا جا سکتا ہے۔
گو کہ ابھی یہ اضافے مشکل اور پیچیدہ لگ رہے ہیں، لیکن یہ بھی قابل غور بات ہے کہ جب انگریزی میں بھی یہ اضافے ہوتے ہیں تو عام آدمی تو کیا حیاتیات کے عام طالب علموں (ان سے الگ کہ جو انتہائی ذہین ترین طالب علم ہوں یا جن کی تعلیم اعلی انگریزی اداروں میں ہوئی ہو یا کہ جن کے قریب ان کو بتانے اور سمجھانے والے قابل افراد میسر ہوں) کے ليے بھی سمجھنا ممکن نہیں ہوتیں۔ اگر ان کو اردو کے اضافوں کے ساتھ بتایا جائیگا تو پیچیدہ یا عجیب ہونے کے باوجود ان کے سمجھنے کے امکانات انگریزی کے اضافوں کے ساتھ بتائے جانے والے اضافوں کی نسبت یقننا کہیں زیادہ اور دیرپا ذہن نشیں ہوں گے۔