تیزابی حملوں کے متاثرین کا بین الاقوامی ٹرسٹ (انگریزی: Acid Survivors Trust International) ایک مملکت متحدہ میں قائم رفاہی ادارہ ہے تیزاب اور آتش زنی کے تشدد کو بین الاقوامی کو روکنے کی کوشش کرتا ہے[1]، جس کے بیش تر متاثرین خواتین ہیں۔ تیزابی حملے کے کئی واقعات نوجوان لڑکیوں کے ساتھ پیش آ چکے ہیں۔ کئی بار دنیا میں لڑکوں نے کسی لڑکی کی جانب سے ان کی محبت کو مسترد کیے جانے یا شادی سے انکار کی صورت میں تیزاب پھینک کر حملہ کیا ہے۔ اس حملہ کا عمومًا نشانہ چہرہ رہا ہے۔ ایک بد نما چہرے کی حامل یہ لڑکیاں اکثر شادی سے محروم تو رہی ہیں ہی، ساتھ میں ملازمت یا کسی عوامی مقام پر ناپسندیدگی کی نظروں سے دیکھی گئی ہیں۔ اس وجہ سے اس تشدد کی شکار لڑکیاں ایک بے حد متروک اور ناگفتہ بہ زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔
تیزابی حملوں کے متاثرین کا بین الاقوامی ٹرسٹ کئی ادارہ جات کی بنگلہ دیش، کمبوڈیا، بھارت، نیپال، پاکستان اور یوگانڈا میں اس مقصد کے لیے اور متاثرہ خواتین کی باز آباد کاری کے لیے مدد کرتا ہے۔ یہ ادارہ 2002ء میں قائم ہوا تھا اور یہ انگریز قانون کے تحت ایک اندراج شدہ خیراتی ادارہ ہے۔[2]
امداد یافتہ ممالک میں ممالک تیزابی حملے
بھارت اور پاکستان سمیت کئی ترقی پزیر ملکوں میں خواتین پر تیزابی حملے وقتًا فوقتًا ہوتے آئے ہیں۔ 2019ء میں بھارت میں جاری فلم چھپاک تیزاب کے حملہ سے بچ جانے والی لکشمی اگروال کی اصل زندگی کی کہانی پر مبنی ہے۔ 2005ء میں ، 15 سال کی عمر میں ، لکشمی اگروال ، جو اس وقت ایک نابالغ تھی ، پر ایک شخص نے تیزاب کی بوتل سے حملہ کیا ، کیونکہ انھوں نے اس سے شادی سے انکار کر دیا تھا۔ اس حملے کے بعد لکشمی نے اسٹاپ ایسڈ اٹیکس کے نام سے مہم شروع کی ابتدائی دنوں میں وہ مہم کی کوآرڈینیٹر کی حیثیت سے کام کرتی تھیں۔ جلد ہی ، لکشمی پوری دنیا میں تیزاب کے حملوں سے بچ جانے والوں کی آواز بن گئیں اور اپنی سخت محنت سے تیزاب کے حملوں کو روکنے کے لیے پوری دنیا میں مشہور ہو گئیں۔ تیزاب کی فروخت پر روک لگانے اور تیزاب کے حملوں سے بچ جانے والے افراد کی بحالی کے لیے اپنی فاؤنڈیشن کے ذریعہ انھیں ہندوستان میں متعدد ایوارڈ ملے۔ لکشمی نے تیزاب کے حملے اور تیزاب کی فروخت کے خلاف ٹویٹر پر #StopAcidSale مہم شروع کی جس نے ملک بھر میں وسیع پیمانے پر حمایت حاصل کی۔[3]
مزید دیکھیے
حوالہ جات