بھارتی مزدور قانون

بھارتی مزدور قانون سے مراد وہ قوانین ہیں جو بھارت میں مزدوری پر نافذ ہوتے ہیں۔ روایتی طور پربھارت کی وفاقی اور ریاستی حکومتیں مزدوروں کے مکمل تحفظ کے لیے کوشاں تھیں، مگر عملاً قانون سازی سے حاصل شدہ حقوق مزدوروں کی ایک محدود تعداد کو حاصل تھے۔ بھارت وفاقی طرز حکومت ہے اور چونکہ مزدوروں کا معاملہ دستور ہند کی مشترکہ فہرست میں شامل ہے، لہذا مزدوروں کا معاملہ مرکزی اور ریاستی دونوں حکومتوں کے دائرہ کار میں ہے۔ مرکزی اور ریاستی حکومتیں مزدوروں کے تعلقات اور روزگار کے مسائل پر قوانین بنا چکی ہیں۔

تاریخ

بھارتی مزدور قانون بہت قریب سے تحریک آزادی ہند اور خاموش مزاحمت آزادی کی قیادت کی مہمات سے منسلک ہے۔ جب بھارت نوآبادیاتی حکمرانی کے تحت تھا، برطانوی راج میں مزدوروں کے حقوق، ٹریڈ یونینوں اور آزادی وابستگی تمام ہی کو دبا دیا گیا تھا۔ مزدور جو بہتر حالات کی کوشش کرتے تھے اور ٹریڈ یونین جو ہڑتال کارروائی کے ذریعے مہم چلاتے تھے، دبا دیے جاتے۔ 1947ء میں آزادی ملنے کے بعد، 1950ء کے آئین میں بنیادی مزدوروں کے حقوق کا ایک سلسلہ دستور ہند میں مندرج ہوا، خاص طور پر حق کے ساتھ شامل ہونے اور ایک ٹریڈ یونین کی کارروائی میں حصہ لینے کے بارے میں۔ کام کی جگہ پر برابری کے اصول پر اور مہذب حیثیت میں کام کے ساتھ ایک زندہ اجرت کرنے کی خواہش بھی ان ہی عوامل میں شامل تھی۔

دستوری حقوق

دستور ہند میں 1950ء سے دفعات 14-16، 19(1)(c)، 23-24, 38 اور 41-43A براہ راست مزدوروں کے حقوق سے متعلق ہیں۔ دفعہ 14 کے مطابق ہر شخص کو قانون کے روبرو برابر ہونا چاہیے۔ دفعہ 15 خصوصیت سے کہتی ہے کہ ریاست شہریوں کے بیچ کوئی امتیاز نہیں کرے گی۔ دفعہ 16 ملازمت کے لیے مساوی مواقع کو ریاست کے تحت فروغ دیتا ہے۔ دفعہ 19(1)(c) ہر شخص کو وابستگی قائم کرنے کا حق فراہم کرتا۔ دفعہ 23 ہر قسم کی بُردہ فروشی اور جبری ملازمت کی مذمت کرتا ہے۔ دفعہ 24 14 سال سے کم عمروں کی مزدوری پر روک لگاتا ہے۔ یہ دفعہ بطور خاص فیکٹری، آتشیں مادہ کی تیاری یا کسی اور جان لیوا ملازمت پر روک سے متعلق ہے۔

دفعات 38-39 اور 41-43A دستور حصہ چہارم میں فہرست بند دیگر حقوق کی طرح عدالتوں کے ذریعے نافذ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔ یہ ریاست کے توقعاتی فریضے کی نشان دہی کرتے ہیں کہ قانون سازی میں ان اصولوں کو بروئے کار لایا جائے گا۔[1] اصل میں ان اصولوں کو عدالت کے تحت نافذ العمل نہ بنانے کے پیچھے مقصد یہ تھا کہ جمہوری طور پر جوابدہ ادارہ جات اپنے صوابدید پر چھوڑے جانے چاہیے، ان اندیشوں کی روشنی میں کہ یہ ریاست پر عمومی محاصل سے عطیہ فراہمی کا مطالبہ جاری کر سکتا ہے، حالانکہ یہ خیالات متنازع ہو سکتے ہیں۔ دفعہ 38(1) کے مطابق عمومًا ریاست کوشش کرے گی کہ سبھی لوگوں کی بھلائی کا فروغ ہو ایک سماجی ضابطے کے تحت جس میں انصاف، سماجی، معاشی اور سیاسی، جو قومی زندگی کے سبھی ادارہ تک پھیلے گا۔

دفعہ 38(2) کے مطابق ریاست آمدنی کی نابرابری دور کرنے کی کوشش کرے گا سبھی دیگر موقفوں کو مد نظر رکھتے ہوئے۔ دفعہ 41 کام کا حق فراہم کرتا ہے جسے قومی دیہی ملازمت گارنٹی قانون 2005ء کے ذریعے روبہ عمل لانے کی کوشش کی گئی تھی۔

دفعہ 42 کے تحت یہ ضروری ہوتا ہے کہ ریاست منصفانہ اور کام کے لیے سازگار انسانی حالات اور زچگی کے لیے راحت فراہم کرے۔ دفعہ 43 کے تحت مزدوروں کو کفافی اجرت (living wage) کا حق حاصل ہے اور عزت دار معیاری زندگی بہترکے حالات کے ساتھ فراہم ہوں۔ دستور ہند (بیالیسویں ترمیم) قانون 1976ء[2] کے تحت دفعہ 43A شامل کیا گیا جو ایک یسا دستوری حق قائم کرتا ہے جس سے کہ ریاست قانون سازی کرسکتی ہے تا کہ مزدوروں کی انتظامیہ کے زیراثر اداروں میں حصے داری یقینی ہو۔

معاہدہ اور حقوق

تحفظ کا دائرہ

بھارتی مزدوری قانون منظم شعبوں میں کام کرنے والوں اور غیر منظم شعبوں میں کام کرنے والوں کے بیچ فرق کرتا ہے۔[حوالہ درکار] قانون ان صنعتی شعبوں کی فہرست فراہم کرتا ہے جہاں مزدوروں کے حقوق نافذ ہوتے ہیں۔ جو لوگ ان شعبوں میں نہیں آتے ہیں، عام قانون معاہدہ ان پر نافذ ہوتا ہے۔[حوالہ درکار]

بھارتی مزدور قانون صنعتی قضایا قانون 1947ء کے تحت کئی تبدیلیوں سے ہو کر گذرا ہے۔ تب سے 45 قومی قوانین یا وسعت فراہم کرتے ہیں یا 1948ء کے قانون کے معاملات کا کچھ حد تک احاطہ کرتے ہیں۔ ریاستی سطح پر 200 ریاستی قوانین ملازمین اور کمپنی کے تعلقات سے متعلق ہیں۔ یہ قوانین آجر اور ملازموں کے پر معاملے پر محیط ہیں، جیسے کہ ایک کمپنی 6 حاضری لاگ رکھنا چاہیے، 10 مختلف کھاتے زائد وقت اجرت کے لیے اور 5 قسم کی رودادیں پیش کرنے چاہیے۔ مزدور قانون کا دائرہ بیت الخلا کی پیشاب گاہ کی لمبائی طے کرنے سے لے کر کام کی جگہ کتنی بار لیموں سے دھلنا چاہیے تک مختلف پہلو بتاتا ہے۔[3] معائنہ کار کام کی جگہ کا کبھی بھی معائنہ کر سکتے ہیں اور کسی بھی مزدور قانون اور ضابطے کی خلاف ورزی پر جرمانہ جاری کرسکتے ہیں۔

ملازمت کا معاہدہ

بھارت میں ملازمت کے جتنے معاہدوں پر گرفت لگتی ہے، یہ ضوابط قابل لحاظ حد تک حکومت کی شمولیت لاتے ہیں جو ترقی یافتہ ممالک میں کم ہی دیکھی جاتی ہے۔ صنعتی ملازمت (مروجہ احکام) قانون 1946ء یہ ضروری بناتا ہے کہ آجرین شرائط میں کام کے اوقات، رخصت، محصلہ مقاصد، برخاستگی کے طریقے یا ملازمین کی تشخیص کو ایک سرکاری ادارے کی جانب سے کروالیں۔[4]

بامعاہدہ مزدور (ضابطہ اور کالعدمی) قانون 1970ء کا مقصد بامعاہدہ مزدوروں کی نگرانی کرنا تاکہ اسے براہ راست مقرر مزدوروں کے مساوی موقف حاصل ہو۔[5] خواتین کو اب راتوں کی شفٹ (10بجے سے 6بجے) میں کام کرنے کی اجازت ہے۔[5]

لاطینی محاورہ 'dies non' حکومت اور صنعت کے ڈسپلین کے نافذین کے یہاں بہت ہی زیادہ مسعمل ہوتا ہے جو غیر اجازت یافتہ غیر حاضری سے لے مجرمانہ ملازمین پر نافذ ہوتا ہے۔ آر پی سکسینہ، چیف انجینئر، بھارتی ریلویز کے مطابق 'dies non' وہ عرصہ ہے جو نہ خدمت میں شمار کیا جاتا ہے اور نہ ہی خدمت سے وقفہ۔ کسی شخص کو dies-non نشانزدہ کیا جا سکتا ہے اگر:

1.غیر حاضر بلااجازت
2.خدمت کے لیے جوع ہوا ہو مگر بلااجازت فرار ہو۔
3. دفتر میں ہو مگر فرائض کی انجام دہی سے انکار کرے۔

ایسے معاملے جب کہ دانستہ اور غیر مجاز طور پر کام سے غیر حاضری ہو، رخصت کا ذمے دار شخص یہ فیصلہ لے سکتا ہے کہ ان دنوں جب کہ کام انجام نہیں دیا گیا، dies non سمجھے جائیں جن پر کام نہیں اجرت نہیں کا اصول نافذ ہوگا۔ یہ عمل دیگر لوگوں کے اسی طرح کے عمل صرف نظر کر کے طے نہیں ہوگا۔[6] کام نہیں اجرت نہیں کا اصول بنک کاری شعبے میں بکثرت مستعمل ہے۔[7] دیگر اشیاء ساز صنعتیں اور بڑے خدماتی ادارہ جات جیسے کہ ریلویز، ڈاک، فون بھی اسے نافذ کر رہے ہیں تاکہ کسی ملازم کی جانب سے غیر مجاز غیر حاضری کا سدباب ہو۔ صنعت کی اصطلاح ازخود آجر اور مزدور کے بیچ بامعاہدہ تعلق قائم کرتا ہے تاکہ اشیاء اور خدمات کی فروخت ہو جس کی تیاری باہمی کوششوں سے ہوتی ہے۔

یہ معاہدہ اشیاء اور خدمات کی تیاری کے ساتھ ساتھ ملازمین پر فرائض (مستزاد فرائض) عائد کرتا ہے کہ وہ خدمات انجام دیں جس کے لیے کہ آلات مہیا کیے گئے اور جگہ اور وقت آجر کی جانب سے طے کیا گیا۔ جیسے کو تیسا کے اصول پر عمل کرتے ہوئے آجر کی ذمے داری ہے کہ وہ کیے گئے کام کے بدلے اجرت دے یا ملازمت کے معاہدے کی تکمیل کرے۔ فرائض میں مستزاد فرائض، عمومی فرائض، ہنگامی فرائض وغیرہ شامل ہیں جو ملازمین کی جانب سے کیے جاتے ہیں اور اس کے بدلے اجرت دی جاتی ہے۔ جب ملازمت کا معاہدہ پورا نہ کیا جائے یا کام عندالطلب نہ کیا جائے، کام نہیں تو اجرت نہیں پر عمل آوری شروع ہوتی ہے۔

اجرت کا ضابطہ

اجرت کی ادائیگی قانون 1936ء یہ ضروری کرتا ہے کہ ملازمین اپنی اجرت وقت پر پائیں جس میں غیر مجاز تخفیف نہ ہو۔ دفعہ 6 کی رو سے لوگوں کو اشیاء کی بجائے رقم ملنا چاہیے۔ یہ قانون محصول کے لیے رقم روکے رکھنے کی بھی اجازت دیتا ہے جسے آجر کو کاٹ کر ریاستی یا مرکزی حکومت کو اجرت کی تقسیم سے پہلے دینا پڑتا ہے۔[8]

اقل ترین اجرت قانون 1948ء ان اجرتوں کو طے کرتا ہے جو معاشی گوشے یہ دعوٰی کرتے ہیں وہ پورا کرتے ہیں۔ یہ کئی ملازمین کو ضابطے سے باہر رکھتا ہے۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے پاس اختیار ہے کہ وہ اجرتوں کو کام کی نورعیت اور مقام کے حساب سے طے کرسکتے ہیں۔ اس کا تعین ٰٰ سے 143 1120 تومیہ مرکزی دائرے کے میں ہے۔ ریاستی حکومتیں اپنے خود کے اقل ترین اجرت کے دائرے طے کر سکتی ہیں۔[9]

گریچویٹی کی ادائیگی قانون 1972ء ان ادارہ جات پر نافذ ہے جہاں دس یا اس سے زیادہ ملازمین ہوں۔ ملازمین کو گریچویٹی قابل ادا ہو گی اگر وہ استعفٰی دے یا وظیفہ پر سبکدوش ہو۔ بھارتی حکومت یہ ضروری بناتی ہے کہ یہ ادائیگی 15 ملازمین کی ہر مکمل سال کے 15 دنوں کی تنخواہ پر منحصر ہو گی جبکہ اعظم ترین 1000000 ہونا چاہیے۔[10]

بونس کی ادائیگی قانون 1965ء، جو صرف ان ہی ادارہ جات پر نافذ ہے جہاں کی افرادی قوت 20 سے اوپر ہے۔ اس کے تحت بونس محصلہ منافع پر بونسوں کی ادائیگی ضروری ہے۔ موجودہ اقل ترین بونس تنخواہ کا 8.33 فیصد ہے۔[11]

اس سلسلے کے دو مخصوص قوانین ہفتہ وار تعطیلات قانون 1942ء اور سگار ملازمین کا قانون 1967ء ہیں۔

صحت اور حفاظت

وظیفہ جات اور سماجی بیمہ

ملازمین کا پراویڈنٹ فنڈ اور متفرق سہولیات قانون 1952ء نے بھارت کے ملازمین کے پراویڈنٹ فنڈ کا ادارہ کی بنا رکھی۔ اس کا مقصد بڑبھاپے کے لیے وظیفے کی سہولت منظم ملازمت پیشہ لوگوں کو فراہم کرنا ہے۔ ان ملازمین کے لیے یہ پراویڈنٹ فنڈ کی سہولت تیار کرتا ہے جسے ملازمین اور آجرین یکساں طور پر تعاون کرتے ہیں اور اقل ترین تعاون اجرت کا 10-12 فیصد سالانہ ہے۔ ملازمت کی سرکاری عمر کی تکمیل کی صورت میں ملازمین اپنا وظیفہ حاصل کرسکتے ہیں۔[14]

ملازمین کا ریاستی بیمہ صحت اور سماجی حفاظت بیمہ کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ یہ ملازمین کے ریاستی بیمہ قانون 1948ء کے تحت بنایا گیا تھا۔[15]

غیرمنطم ملازمین کی سماجی حفاظت قانون 2008ء میں بنایا گیا تھا تاکہ زندگی اور اپایج پن، صحت اور زچگی کے فوائد اور طویل العمری کا تحفظ غیر منظم ملازمین تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ "غیر منظم" سے مراد کھربیٹھے کاریگر، خودملازمتی اشخاص یا دہاڑی مزدور۔ مرکزی حکومت نے لوگوں کی ضروریات کی تکمیل کے لیے قومی سماجی حفاظتی بورڈ کے ذریعے رفاہی نظام بنانے کے بارے میں سوچا ہے۔

زچگی کی سہولت قانون 1961ء ہر اس خاتون ملازم کے لیے زچگی کی سہولت مہیا کرتا ہے جو کسی ادارے میں کم از کم 80 دن کسی بھی 12 مہینے کی میعاد دوران میں پورے کرتی ہے جو اس کی متوقع زچگی سے فوری پہلے ہو۔[16]

کام کی جگہ میں شرکت

ٹریڈ یونین

دستور ہند کی دفعہ 19(1)(c) ہر شخص کو ایک قابل نفاذ حق فراہم کرتی ہے کہ "انجمنیں یا یونینیں بنائی جائیں۔

ٹریڈ یونین قانون 1926ء جس کی ترمیم 2001ء میں ہوئی تھی، حکمرانی اور ٹریڈ یونینوں کے اصول طے کرتا ہے۔[17]

انتظامیہ میں شرکت

تحریک آزادی ہند کے تناظر میں جس میں کہ موہن داس گاندھی اور کئی اوروں نے رائے دی کہ ملازمین کو کمپنیوں کی انتظامیہ میں حصے داری کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا کے حصص گیرندوں (شیئر ہولڈرس) کو یا جائداد کے مالکوں کو،[18] دستور میں دفعہ 43A دستور ہند کی بیالیسویں ترمیم کے ذریعے 1976ء میں شامل ہوئی۔[2] اس سے مساوی تعین کے حق کو جگہ دی گئی جس کے لیے ریاست کو اس بات کے لیے قانون سازی کی ضرورت تھی کہ "ملازمین کو تنظیمی ڈھانچوں کے انتظامیہ میں شرکت کو یقینی بنایا جا سکے"۔ تاہم حصہ چہارم میں مذکور دیگر حقوق کی طرح یہ براہ راست قابل نفاذ نہیں ہے بلکہ یہ ریاستی ارکان پر ایک ذمے داری عائد کرتی ہے کہ ان اصولوں پر قانون سازی کی جائے۔ 1978ء میں سچر رپورٹ میں یہ سفارش کی گئی کہ ملازمین کو بورڈ میں شامل کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے۔ تاہم اس کی ابھی تک عمل آوری نہیں ہوئی۔[19]

صنعتی تنازعات قانون 1947ء کی شق 3 مشترکہ عملی کونسلوں میں شرکت کا حق دیتی ہے تاکہ "ایسے اقدامات کیے جائیں کہ آجر اور کاریگروں کے بیچ ہم آہنگی اور بہتر تعلقات میں سہولت ہو اور اسی کی وجہ سے باہمی مفاد یا توجہ کے معاملات پرتبصرہ کیا جائے اور کوشش کی جائے کہ ان معاملات میں موجود اختلاف رائے نپٹائی جائے۔" تاہم ٹریڈ یونین ان مواقع کو بڑے پیمانے پر آگے نہیں بڑھائے ہیں۔ نیشنل ٹیکسائیل ورکرز یونین بمقابلہ راماکرشنن مقدمے [20] میں سپریم کورٹ کے جسٹس بھگوتی جے نے ایک ایک قائدانہ فیصلہ سناتے ہوئے یہ فیصلہ سنایا کہ ملازمین کو یہ حق ہے کہ کمپنی کی مسدودی کی درخواست پر ان کی بات بھی سنی جائے کیونکہ ان کا مفاد راست متاثر ہو رہا ہے اور ان کے اس موقف کی کمپنی قانون 1956ء کی شق 398 کے الفاظ سے نفی نہیں ہوتی۔[21]

اجتماعی عمل

صنعتی تنازعات قانون 1947ء اس بات کا تعین کرتا ہے کہ ملازمین کس طرح صنعتی تنازعات سے جوج سکتے ہیں جیسے کہ قفل بندی، عارضی برخاستگی، ملازمت سے اخراج وغیرہ۔ یہ قانونی عمل آوری کے ذرائع جیسے کہ مصالحت اور مزدور تنازعات کی فیصلہ سازی۔[22]

بھارتی سیول سروسیس کے بنیادی اصولوں کی رو سے (FR 17A) خدمات سے غیر مجاز غیر حاضری (i) ان ملازمین کے معاملے میں جو صنعتی ڈھانچوں کام کر رہے ہیں، جہاں ہڑتال صنعتی تنازعات قانون 1947ء کے تحت غیر قانونی قرار دی گئی ہے یا کسی دیگر قانون کے تحت یہی صورت حال ہو؛ (ii) دیگر ملازمین کے معاملے میں مشترکہ عمل کی صورت میں یا ایک ملی جلے عمل کے حصے کے طور پر، جیساکہ ہڑتال کے دوران میں کسی جواز کے بغیر یا متعلقہ ارباب مجاز کی نظروں میں واجب وجہ کے بغیر، کو یہ باور کیا جائے گا کہ یہ ایک رکاوٹ یا خدمت میں خلل ہے، تاوقتیکہ ارباب مجاز مبادا نہ سمجھیں، جیسے کہ رخصت میں سفر میں تخفیف، نیم دائمانہ اور اہلیت کہ محکمہ جاتی امتحانات میں حصہ لیا جائے، جس کے لیے کم از کم مسلسل خدمت کا عرصہ درکار ہو۔[23]

جنسی امتیازات

دستور کی دفعہ 39(d) کی رو سے مرد و خواتین کو مساوی کام کے لیے مساوی اجرت ملنا چاہیے۔ مساوی اجرت قانون 1976ء اسی اصول کی قانون سازی تھی۔

مساوات

دستور کی دفعہ 14 کی رو سے ہر شخص قانون کی نظروں میں برابر ہے۔ دفعہ 15 خصوصیت سے کہتی ہے کہ ریاست کو شہریوں کے بیچ امتیاز نہیں کرنا چاہیے اور دفعہ 16 سب کے لیے ملازمت میں "مساوی حقوق" جاری کرتی ہے۔ دفعہ 23 ہر قسم کی بُردہ فروشی اور جبری مزدوری کو روکتی ہے، جبکہ دفعہ 24 کم سنی کی مزدوری پر فیکٹریوں، کانوں یا خطرناک ملازمتوں میں روک لگاتی ہے۔

جنسی امتیازات

دفعہ 39(d) کی رو سے مردوں اور عورتوں کو ایک جیسے کام کے لیے ایک جیسی اجرت حاصل ہونا چاہیے۔ مساوی اجرت قانون 1976ء نے اس اصول کو قانون سازی میں عملی جامہ پہنایا۔

نقل مقام کرنے والے ملازمین

ستم رسیدہ زمرے

بھارت میں کم سن مزدوری دستور کی دفعہ 24 کے تحت فیکٹریوں، کانوں اور خطرناک ملازمتوں میں ممنوع ہے۔ اسی طرح دفعہ 21 کے تحت ریاست مفت اور لازمی تعلیم 14 سال تک فراہم کرے گی۔[25] تاہم عملی طور پر یہ قوانین نافذ نہیں ہیں۔

ملازمت سے اخراج کا ضابطہ

بھارت کے سب سے زیادہ متنازع قوانین ملازمت سے اخراج سے متعلق صنعتی تنازعات قانون 1947ء میں شامل ہے۔ ایک کاریگر جو ایک سال سے زیادہ عرصے تک برسرخدمت رہا ہو، وہ اسی صورت میں ہٹایا جا سکتا ہے جبکہ متعلقہ سرکاری دفتر سے اجازت طلب کی گئی ہو اور دی گئی ہو۔[26] اس کے علاوہ برخاستگی سے پہلے واجبی وجوہات دیے جانے چاہیے اور حکومت کی اجازت سے پہلے دو مہینے انتظار کی میعاد ہے تاکہ قانونی طور ملازمت ختم ہو سکے۔ عارضی یا مستقل ملازم کے اخراج کی اجرت کی ادائیگی ہونا چاہیے جو ہر تکمیل کردہ سال کے حساب سے سالانہ 15 دن کی اوسط اجرت ہے۔ ایک ملازم جس نے مختلف نوٹسوں اور ممکنہ کارروائیوں کے باوجود چار سال کام کیا ہو، برخاستگی سے 60 دن پہلے کی اجرت کا حق دار قرار پاتا ہے اگر حکومت آجر کو اسے الگ کرنے کی اجازت دے دے۔

کسی مستقل ملازم کو صرف ثابت شدہ بداخلاقی یا عادی غیر حاضری کی صورت میں برخاست کیا جا سکتا ہے۔[27] صنعتی تنازعات قانون کی رو سے ہر وہ کمپنی جس کے 100 ملازمین ہوں، مسدودی یا ملازمین کو نکالنے سے پہلے حکومت کی جانب سے منظوری طلب کرنا ضروری ہے۔[5] عملی طور پر ملازمین کی برخاستگی کی اجازت شاذونادر ہی دی جاتی ہے۔[5] بھارتی قوانین کی رو سے کمپنیوں کو مقامِ صنعت کی مسدودی کی صورت میں ملازمین کی برخاستگی کی اجازت کی ضرورت ہے۔ حکومت اجازت دے بھی سکتی ہے یا انکار بھی کرسکتی ہے اگرچیکہ کمپنی کارروائی جاری رکھنے کی وجہ سے مالی مشکلات کی شکار کیوں نہ ہو۔[28]

اخراج سے متاثر ملازم اپیل کا حق رکھتا ہے، اگرچیکہ حکومت برخاستگی کی درخواست حکومت کی منظورکردہ کیوں نہ ہو۔ بھارتی مزدور ضابطے اپیل اور فیصلہ سازی کے کئی ارباب مجاز فراہم کرتے ہیں – مصالحت کے افسر (conciliation officers)، مصالحت کے بورڈ، تحقیقاتی عدالتیں (courts of inquiry)، مزدور عدالتیں، صنعتی خصوصی عدالتیں (industrial tribunals) اور قومی صنعتی خصوصی عدالت (national industrial tribunal) – جو صنعتی تنازعات قانون کے تحت آتے ہیں۔[29] مزدوروں کی اپیل اور فیصلہ سازی کے طریقوں کے علاوہ کوئی معاملہ متعلقہ ریاستی ہائی کورٹ یا بالآخر سپریم کورٹ تک پہنچ سکتا ہے۔

  • بھارت فورج کمپنی لیمیٹیڈ بمقابلہ اتم منوہر نکاٹے (2005ء) INSC 45 اس معاملے میں ایک ملازم چوتھی بار 1983ء میں سوتا ہوا پایا گیا تھا۔ بھارت فورج نے صنعتی ملازمت قانون (1946ء) کے تحت تادیبی کارروائی شروع کی۔ پانچ مہینے کی کارروائی کے بعد ملازم خاطی پایا گیا اور برخاست کیا گیا۔ ملازم نے مزدور عدالت میں اپیل کی اور یہ استدعا کی کہ اس کی برخاستگی بھارتی مزدور قوانین کی رو سے غیر منصفانہ تھی۔ مزدور عدالت نے ملازم کی طرف داری کی اور اس بازماموری 50% پس پشت اجرت کے ساتھ کرنے کا حکم دیا۔ یہ معاملہ کئی اپیلوں کے مرحلے سے گذرا اور بھارتی عدالیہ نظام پر چھایا رہا۔ 22 سال کے بعد بھارت کے سپریم کورٹ نے اس کی برخاستگی کو 2005ء میں برقرار رکھا۔[30][31]

بے روزگاری

  • قومی دیہی ملازمت گارنٹی قانون 2005ء
  • صنعت (ضابطہ اور ترقی) قانون 1951ء نے یہ اعلان کیا کہ تیاری کی وہ سبھی صنعتیں جو پہلی فہرست میں آتی ہیں ریاستی حکومتوں کی قانون سازی کے علاوہ مشترکہ مرکزی حکومت کے ضابطوں میں آتی ہیں۔ اس سے 600 اشیاء کا تحفظ ہوا جو مختصر پیمانے کے کارخانوں ہی میں بنائے جا سکتے ہیں۔ اس سے یہ تعین ہوا کہ کون ان تجارتوں میں داخل ہو سکتا ہے اور اس سے بھی یہ کہ کمپنیوں میں فہرست بند اشیاء کے لیے ملازمین کی تعداد طے کر دی گئی۔ اس فہرست میں سبھی کلیدی تکنیکی اور صنعتی اشیاء کو 1950ء کے دہے میں شامل کیا گیا تھا، جس میں کچھ آہنی اور فولادی اشیاء، ایندھن سے حاصل اشیاء، موٹریں، مخصوص مشینری، مشینری اوزار، چینی مٹی کی چیزوں سے لے کر سائنسی آلات شامل تھے۔[32]

ریاستی قوانین

ہر ریاست مخصوص حالات کے لیے مخصوص مزدور ضابطے رکھ سکتی ہے۔

گجرات

2004ء میں ریاست گجرات نے صنعتی تنازعات قانون ترمیم کرتے ہوئے ریاست کے خصوصی برآمد علاقوں کے (Special Export Zones) مزدور بازار میں لچک پیدا کرنے کی کوشش کی۔ یہ قانون ان علاقوں کی کمپنیوں کو زائد ملازمین کو ملازمت سے بغیر سرکاری اجازت نکالنے کا اختیار دیتا ہے، جس کے لیے انھیں رسمی نوٹس اور علیحدگی کی اجرت دینا ضروری قرار دیا گیا ہے۔[33]

مغربی بنگال

مغربی بنگال نے اپنے مزدور قوانین پر نظرثانی کی ہے جس سے یہ عملاً ناممکن ہو چکا ہے کہ کسی نقصان رساں فیکٹری کو بند کیا جاسکے۔[33] یہ ریاستی قانون ان تمام کمپنیوں پر عائد ہوتا ہے جہاں 50 یا اس سے زائد ملازمین ہوں۔[34]

بھارتی مزدور قوانین کا بین الاقوامی موازنہ

ذیل کے جدول میں بھارتی مزدور قوانین کے چینی اور ریاستہائے متحدہ امریکا کے قوانین سے اختلافی نکات درج ہیں، جیساکہ 2011ء میں محسوس کیا گیا ہے:

متعلقہ ضابطے اور مزدور قوانین کی پیچیدگی[35]
قانون کا مطلوبہ عمل  بھارت  چین  ریاستہائے متحدہ
اقل ترین اجرت (US$/month) 6,000 (امریکی $84) /month[36][37] 182.5 1242.6
معیاری کام کا دن 8 گھنٹے 8 گھنٹے 8 گھنٹے
کام کے دوران میں آرام ہر ساڑھے چھ گھنٹے پر آدھا گھنٹا نہیں نہیں
اعظم ترین زائد وقت کی حد 200 گھنٹے سالانہ [انتساب درکار] 432 گھنٹے سالانہ[38] کچھ نہیں
زائد وقت کے لیے زائد اجرت 100% 50% 50%
ملازمین کی برخاستگی ہاں، اگر حکومت سے منظور ہو۔ ہاں، بنا حکومت کی منظوری حکومت کی منظوری ہاں، بنا حکومت کی منظوری
ایک ملازم کی برخاستگی کے لیے حکومت کی منظوری ضروری ہے؟ ہاں نہیں نہیں
نو ملازمین کی برخاستگی کے لیے حکومت کی منظوری ضروری ہے؟ ہاں نہیں نہیں
ملازمت سے اخراج کے لیے حکومت کی منظوی مل جاتی ہے۔ شاذونادر[39][40] اطلاق نہیں اطلاق نہیں
برخاستگی میں اولیت کے اصول منضبط ہاں ہاں نہیں
علیحدگی کی اجرت زائد از ضرورت برخاستگی
اس ملازم کے لیے جو ایک سالہ میعاد مکمل کرے
2.1 ہفتے کی تنخواہ 4.3-ہفتے کی تنخواہ کچھ نہیں
علیحدگی کی اجرت زائد از ضرورت برخاستگی
اس ملازم کے لیے جو پانچ سالہ میعاد مکمل کرے
10.7-ہفتے کی تنخواہ 21.7-ہفتے کی تنخواہ کچھ نہیں

تنقید اور اصلاحات

کئی مبصرین نے جواز پیش کیا ہے کہ بھارتی مزدور قانون کی اصلاح ہونا چاہیے۔[41][42][43][44][45][46][47][5][48]

یہ قوانین رسمی تیاری شعبے کی ترقی میں رکاوٹ ثابت ہوئے ہیں۔[46]

عالمی بینک کی 2008ء میں جاری کر دہ رپورٹ کے مطابق، بھاری اصلاحات متوقع ہیں۔ سرکاری خلاصے کے مطابق:

بھارت کا مزدور ضابطہ - دنیا میں سب سے تحدیدات والا اور پیچیدہ ہونے کی وجہ سے - رسمی تیاری صنعت کی ترقی میں رکاوٹ بنا ہے جہاں اس کی سب سے زیادہ عمل آوری ہے۔ بہتر بنائے گئے مزدور قوانین زیادہ مزدوروں کو آمادہ کرسکتے ہیں - بھارت کے بے روزگار ملینوں اور خستہ صفت ملازمتوں سے متاثرہ لوگوں کے لیے شدید سرمایہ کاری اور ملازمتیں بنا سکتے ہیں۔ ملک کی ترقی کے رجحان کے پیش نظر امید کے دریچے کو مفقود نہیں کرنا چاہیے جس سے 80 ملین نوآمدکار کے حالات بہتر ہوں گے جو اگلے دہے میں ملازم پیشہ لوگوں میں شامل ہوں گے۔[49]

سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کہا ہے کہ نئے مزدور قوانین کی ضرورت ہے۔[50]

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. Constitution of India, article 37
  2. ^ ا ب
  3. Mehul Srivastava, India Labour Laws Bloomberg Businessweek
  4. "Industrial Employment (Standing Orders) Central Rules 1946" (PDF)۔ 10 اکتوبر 2015 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 اپریل 2016 
  5. ^ ا ب پ ت ٹ Aditya Gupta۔ "How wrong has the Indian Left been about economic reforms?" (PDF)۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اپریل 2016 
  6. Rule 62,P&T manual Vol III, Government of India
  7. C.Krishnamurthi ۔Dies Non (No Work No Pay) in Banking Industry ISBN 978-81-8387-226-3
  8. Payment of Wages Act 1936
  9. "Minimum Wages Act 1948" (PDF)۔ 14 نومبر 2014 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 اپریل 2016 
  10. "Payment of Gratuity Act Gratuity Act 1972" (PDF)۔ 05 مارچ 2016 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 اپریل 2016 
  11. "Payment of Bonus Act 1965" (PDF)۔ 21 اکتوبر 2012 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 اپریل 2016 
  12. "Workmen's Compensation Act 1923" (PDF)۔ 10 اکتوبر 2015 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 اپریل 2016 
  13. "Social Security in India" (PDF)۔ The Government of India۔ 2010 
  14. "Employees Provident Fund and Miscellaneous Provisions Act 1952" (PDF)۔ 21 اکتوبر 2012 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 اپریل 2016 
  15. See Employees' State Insurance Act 1948 آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ esickar.gov.in (Error: unknown archive URL)
  16. "Maternity Benefit Act 1961" (PDF)۔ 02 جولا‎ئی 2013 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 اپریل 2016 
  17. "Trade Unions Act 1926" (PDF)۔ 21 اپریل 2015 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 اپریل 2016 
  18. As Gandhi said, "my advice to the employers would be that they should willingly regard the workers as the real owners of the concerns which they fancy they have created" in 'Harijan' (31 مارچ 1946) reproduced in R Iyer (ed)، The Moral and Political Writing of Mahatma Gandhi (1987) vol 3, 197-199
  19. Ministry of Law, Justice and Company Affairs, Report of the High-Powered Expert Committee on Companies and Maintenance of Restrictive Trade Practices Acts (1978)
  20. 1983 AIR 75, 1983 SCR (1) 9. Noted by J Cottrell, 'Indian Judicial Activism, the Company and the Worker: A Note on National Textile Workers Union v Ramakrishnan' (1990) 39(2) The International and Comparative Law Quarterly 433
  21. Excel Wearv. Union of India A.I.R. 1979 S.C. 25, 36
  22. "Industrial Disputes Act 1947" (PDF)۔ 12 جون 2009 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 اپریل 2016 
  23. Fundamental Rules, Government of India
  24. RS Srivastava, 'Bonded Labor in India: Its Incidence and Pattern' (2005) Cornell University Working Paper
  25. بین الاقوامی مزدوروں کی تنظیم، "National Legislation and Policies Against Child Labour in India" (2011 آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ ilo.org (Error: unknown archive URL))
  26. India Labour Regulations OECD
  27. Parul Sharma (فروری 2007)۔ "Split Legal Regime in India's Labour Laws" (PDF)  [مردہ ربط]
  28. Basu et al, Retrenchment, Labor Laws and Government Policy: An Analysis with Special Reference to India، The World Bank
  29. Lalit Bhasin, Labour and Employment Laws of India آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ unpan1.un.org (Error: unknown archive URL) United Nations
  30. Financial Times, Sleepy System، 21 جنوری 2005
  31. Supreme Court of India, Bharat Forge Co. Ltd vs Uttam Manohar Nakate on 18 جنوری، 2005، CASE NO.: Appeal (civil) 4399 of 2002
  32. "Industries (Development and Regulation) Act 1951" (PDF)۔ 19 جنوری 2012 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اپریل 2016 
  33. ^ ا ب Goldman Sachs says reforms to create 110 mn jobs for economy in 10 yrs Business Today, مارچ 2014
  34. Goldman Thumbs Up for Gujarat Model The Times of India
  35. "Employing Workers – 2011 data (based on input from ILO, OECD, local governments and private employers)"۔ The World Bank۔ 2012 
  36. Central Government Revises the National floor level Minimum Wage (NFLMW) from Rs. 100 Per Day to Rs. 115 Per Day Effective from 01.04.2011
  37. Minimum wage hiked by Rs.15 - The Hindu
  38. Fair Labor Association Secures Commitment to Limit Workers' Hours, Protect Pay at Apple's Largest Supplier | Fair Labor Association
  39. Gordon, Li, Xu (12 اگست 2010)۔ "Labor regulation, economic complexity, and the China-India gap" (PDF)۔ Hamilton University 
  40. Adhvaryu, Chari and Sharma (دسمبر 2009)۔ "Firing costs and flexibility:evidence from firms employment responses to economic shocks" (PDF)۔ Yale University۔ 11 مئی 2013 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اپریل 2016 
  41. "IMF calls for urgent reform in Indian labour laws"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اپریل 2016 
  42. Kaushik Basu, Gary S. Fields, and Shub Debgupta۔ "Retrenchment, Labor Laws and Government Policy: An Analysis with Special Reference to India" (PDF)۔ World Bank 
  43. R. C. Datta / Milly Sil۔ "Contemporary Issues on Labour Law Reform in India" (PDF)۔ 26 فروری 2009 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اپریل 2016 
  44. "Economic survey of India 2007: Policy Brief" (PDF)۔ انجمن اقتصادی تعاون و ترقی۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اپریل 2016 
  45. Kaushik Basu (27 جون 2005)۔ "Why India needs labour law reform"۔ BBC۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اپریل 2016 
  46. ^ ا ب
  47. "A special report on India: An elephant, not a tiger"۔ The Economist۔ 11 دسمبر 2008۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اپریل 2016 
  48. Gurcharan Das (جولائی–اگست 2006)۔ "The India Model"۔ Foreign Affairs۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اپریل 2016 
  49. عالمی بینک، India Country Overview 2008
  50. "New labour laws needed, says Manmohan"۔ The Hindu۔ Chennai, India۔ 10 دسمبر 2005۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اپریل 2016 

Strategi Solo vs Squad di Free Fire: Cara Menang Mudah!