اسرائیل اور ارجنٹائن کے بیچ تعلقات نازیوں کی دھر پکڑ کے سالوں میں بے حد کشیدہ ہو چکے تھے جب اسرائیل کے موساد ادارے نے سابقہ نازیاڈولف ایئیچمین کا اغوا کیا حالاں کہ ارجنٹائن نے اپنا یہ احتجاجی استدلال پیش کیا کہ اس کی حاکمیت کی مہم کے دوران میں پامال کیا گیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ارجنٹائن سابقہ نازی افسروں کی محفوظ پناہ گاہ بن چکا تھا کیوں کہ یہ لوگ اپنے ساتھ اس ملک کے لیے شدت سے در کار سرمایہ فراہم کیا اور / یا پھر تکنیکی مہارت فراہم کی تھی۔[حوالہ درکار]
2012ء میں ارجنٹائن کے صدر کریسٹینا فرنانڈیز دے کیرچنیر نے ایک اسرائیلی عرب وفد سے ملاقات کی اور یہ اعلان کیا کہ ارجنٹائن اسرائیلی فلسطینی تنازع میں امن کی بحالی میں قائدانہ کردار نبھائے گا۔ اس سے قبل 2010ء میں ارجنٹائن نے یہ اعلان کیا تھاکہ وہ برازیل کے شانہ بہ شانہ ایک آزاد فلسطینی مملکت کو تسلیم کرتا ہے، جس پر اسرائیل نے سخت تنقیدی رد عمل ظاہر کیا۔[4]
جہاں ارجنٹائن لاطینی امریکا میں سب سے زیادہ یہودی آبادی رکھتا ہے، وہیں اس کے پاس ضد سامیت کے مختلف واقعات بھی پیش آئے ہیں۔[5][6][7] انھی میں سے ایک لا تابلادا میں 58 یہودی قبروں کی بے حرمتی بھی ہے۔ یہ واقعہ 2009ء کا ہے جس میں نامعلوم ارجنٹائنی افراد شامل تھے۔[8] اس قسم کے واقعات کے پس پردہ اکثر زبان زد عام منفی تصویر شامل ہے کہ یہودی لوگ تجارتی مواقع پر قابض ہیں اور ساری دنیا پر سرمایہ داری کے ذریعے حاوی ہیں۔ اسرائیل کی ریاستہائے متحدہ امریکا سے قربت بھی کچھ حلقوں کو اکھرتی ہے۔ [9][10][11]
ستمبر2017ء میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے ارجنٹائن کا سرکاری دورہ کیا۔ اس طرح وہ اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم بنے جس نے ارجنٹائن اور لاطینی امریکا کا دورہ کیا۔[12]